ایران پہ امریکی اور یورپی پابندیوں کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ اس کا آغاز تبھی ہوگیا تھا جب ایران میںامریکی دلارے رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹا گیا ، اسلامی انقلاب آیا اور ایرانی طلبا نے امریکی سفارتخانے پہ قبضہ کرکے امریکی سفارت کاروں کو تاریخ کے طویل ترین عرصے تک یرغمال بنائے رکھا۔ایران پہ اسی زمانے میں پہلی امریکی پابندیاں امریکی صدر جمی کارٹر نے لگائیں اور امریکہ میں ایران کے تمام اثاثے منجمد کردیے۔بعد میں جب الجزائر معاہدے کے تحت یرغمالی رہا ہوئے توامریکہ ایران کلیم ٹریبونل بنایا گیا جس کے تحت نہ صرف کچھ منجمد اثاثے بحال ہوے بلکہ اگلے بیس سالوں میں چار ہزار سے زائد امریکی کمپنیوں نے ایران سے تین بلین ڈالر کا ہرجانہ بھی وصول کیا جبکہ نوے کی دہائی میں بش انتظامیہ نے ایران کو ان دفاعی معاہدوں کی مد میں تین بلین ڈالر ادا کئے جو شاہ کے زمانے میں طے پائے تھے اور ایران ان کی ادائیگی کرتا رہا تھا لیکن وہ ا نقلاب کے بعد منسوخ کردیے گئے تھے۔ ایران کا اسلامی انقلاب متعدی خصوصیات کا حامل تھا اور عرب دنیا میںا سکے پھیلائو کے امکانات کافی زیادہ تھے۔ صدام حسین جو ایک عرصہ امریکہ کی آنکھ کا تارا رہا اسی کی آشیرباد سے ایران پہ حملہ آور ہوگیا۔اس سے جہاں عراق کی شیعہ آبادی کو لگام ڈالنا مقصود تھا وہیں ایران کے تیل سے بھرے خوزستان اور شط العرب پہ قبضہ کرنا تھا۔ ادھر ایران جو مذہبی جوش و خروش سے بھرا ہوا تھا اور امریکہ کے مضبوط ترین مہرے کو مات دے چکا تھا صدام حسین کا تختہ الٹنا چاہتا تھا۔ حق و باطل کا یہ میچ اقوام متحدہ کی مداخلت سے ڈرا ہوگیا البتہ دونوں طرف لاکھوں مسلمان مارے گئے۔امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کا ایک بڑا مقصد ایران کو مشرق وسطی میں محدود کرنا تھا ۔ اسی تناظر میں نئے ہزاریے میںایران پہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد جوہری صلاحیت کے حامل ایران کو لگام ڈالنا اور اس کی اس صلاحیت کو خالص پرامن استعمال تک محدود کرنا تھا اوریہی وہ وجہ تھی جس نے اس پر امن دنیا کو جس نے نہ کبھی افغانستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تھا،نہ ویت نام کو جہنم بنایا تھا، نہ لیبیا عراق اور فلسطین پہ بری نظر ڈالی تھی، نہ افریقہ کو آگ لگائی تھی، 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پہ مجبور کردیا۔ اسی معاہدے کے تحت ایران کو امریکہ نے مزید چار بلین ڈالرمع ڈیڑھ بلین سود ایران کو ان ہی منسوخ شدہ دفاعی معاہدوں کی مد میں ادا کیا لیکن ایران کے بیشتر منجمد اثاثے اس معاہدے کے بعد بھی منجمد ہی رہے جن میں ایران کے مرکزی بینک کے دو بلین ڈالر جو سٹی بینک میں موجود تھے، سمیت کئی بینک اکاونٹ اور امریکہ میں موجود ایرانی ملکیتی عمارتیں شامل ہیں۔ان اثاثوں کو دنیا بھر میں مبینہ ایرانی دہشت گردی کا شکار امریکی خاندانوں کی اشک شوئی کے لئے استعمال کیا گیا۔حیرت انگیز طور پہ ایران پہ عالمی بالخصوص امریکی پابندیوں نے اس کی معیشت کو دھچکا تو پہنچایا لیکن اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔حالیہ جوہری معاہدے ہونے تک ان پابندیوں کے باعث ایران کی معیشت ہر سال نو فیصد تک سکڑ رہی تھی۔ ایران ایک سو بیس بلین ڈالر کے منجمد اثاثے بیرون ملک بینکوں سے واپس لانے میں ناکام رہا تھا۔ اس دوران چین نے ایران میں قدم جمائے لیکن اس کی گرتی معیشت کوسہارا نہ دے سکا لیکن 2015ء کے جوہری معاہدے نے ایرانی معیشت کو سنبھالا دیا اور اسے تیل کی برآمدات کے حوالے سے اقتصادی پابندیوں سے قبل کی پوزیشن پہ کھڑا کردیا۔اس معاہدے کے دوران یورپ اور چین سمیت پورے ایشیا نے ایران سے تیل کی کھلی تجارت کی ۔ اس کے منجمد اثاثے بحال ہوئے اور پھنسے ہوئے فارن ایکسچینج ذخائر تک اس کی رسائی ہوئی۔ اس کی شرح نمو میں سات فیصد اضافہ ہوا جس نے روحانی کو دوبارہ صدر منتخب ہونے میں مدد دی۔2010ء میں یورپی یونین نے ایران پہ تقریبا امریکہ جتنی ہی سخت پابندیاں لگا رکھی تھیں لیکن اس جوہری معاہدے کے نتیجے میں یہ پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ان میں ایرانی تیل گیس،سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کی برآمدات پہ پابندیوں کے علاوہ ایرانی بینکوں کی یورپی بینکوں کے ساتھ لین دین پہ پابندی بھی شامل تھی۔ یورپی پابندیاں اس جوہری معاہدے کے بعد صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد یا جوہری اور میزائل پروگرام کی روک تھام تک محدود ہوگئیںتھیں لیکن امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کی مخالفت کے باوجود یورپ عظیم امریکی مارکیٹ کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لہٰذا تقریباً سو یورپی کمپنیوں نے ایران سے نکل جانے کا عندیہ دیا ہے ۔ جرمنی کی ایران کو برآمدات میں چار فیصد کمی ہوئی ہے اور فرانس کی رینالٹ کمپنی نے ایک بلین ڈالر کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے۔ اٹلی سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کی بیشتر بڑی کمپنیوں نے جن میں سیمنز ، فاکس ویگن اور مرسڈیز شامل ہیں یا تو معاہدے منسوخ کردیئے ہیں یا نئے معاہدے نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ امریکی دھمکیوں کا یورپ پہ کوئی اثر نہیں ہورہا۔روس اور چین البتہ بالترتیب اپنے دفاعی اور تجارتی معاہدوں کے ساتھ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔چین جو ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میںمصروف ہے ۔ بھارت کو امریکہ نے اپنے پرانے اتحادیوں،جاپان اور جنوبی کوریا کی طرح ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کی مشروط اجازت دے کر ایک خاص مقا م دے دیا ہے۔ ترکی بھی ان آٹھ ممالک میں شامل ہونا چاہتا ہے جو امریکہ کے مقربین میں سے ہیں۔ جمال خشوگی قتل تنازع میں اس نے حیرت انگیز طور پہ سعودی عرب کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا اور اردوان نے نہ صرف امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے بہتر تعلقات کا اعتراف کیا بلکہ دونوں ممالک نے حال ہی میں شام کے صوبے منبیج میںمشترکہ فوجی گشت بھی کیا جہاں امریکہ اسے فوجی تربیت بھی فراہم کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ اس وقت بھی ایران کے ساتھ حالیہ جوہری معاہدے کے شدید ناقد تھے جب برسراقتدار نہیںآئے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ایران کو مہلت دینے کے مترادف ہے اور اس کے نتیجے میں اٹھائی جانے والی پابندیاں ایران کی معیشت کو نہ صرف سنبھالا دیں گی بلکہ اسے جوہری طاقت بننے کا پورا موقع دیں گی۔ ایران جوہری طاقت بنا یا نہیں، اس نے اس دوران مکمل طور پہ مشرق وسطی میں قدم ضرورجما لئے جس سے امریکہ نے مکمل طور پہ صرف نظر کیا۔ اس کے قدیم ایرانی قوم پرستانہ جذبے کو تقویت تو خوب ملی البتہ صرف شام میںا س نے چھ سے پندرہ بلین ڈالر تک عسکری محاذوں میں جھونک ڈالے۔اس کے لئے اسے اپنے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی بھی کرنی پڑی۔ یہ جوہری معاہدہ ایرانی معیشت کے لئے آکسیجن ثابت ہوسکتا تھا لیکن شوق جہانبانی مہنگا شوق ہے قیمت تو چکانی پڑے گی۔