سکون ،اطمینان ،خامشی، شانتی۔ایری جھیل (Erie lake)، کلیو لینڈ ،اوہائیو ،امریکہ کو آپ کوئی بھی نام دے دیں اسے جچتا ہے۔ہوا کی سرسراہٹ اور لہروں کی سرگوشیاں نہ ہوں تو یہ سکون مکمل سکوت میں ڈھل جاتا ہے۔حد نظر تک پھیلی ہوئی ایری جھیل جو شمالی امریکہ کی مزید چار بڑی قدرتی جھیلوں سے جڑی ہوئی ہے اور جو امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کا تعین کرتی ہے۔اِس پار کی نصف جھیل امریکہ کی اور اُس پار کی آدھی جھیل کینیڈا کی۔پانی پر یہ سرحدی لکیر کیسے کھنچی ہے معلوم نہیں۔اس جھیل کے بے پایاں حسن سے فرصت ملے تو تکنیکی معاملوں پر دھیان دیا جائے۔ ایری Erie جھیل کا نام اس کے مقامی لوگوں یعنی ایری قبیلے کے نام پر ہے جو اس کے جنوبی کنارے پر اسی جگہ آباد تھے جہاں اب کلیو لینڈ بسا ہوا ہے اورجو ایروکوئین iroquoianٰ زبان بولتے تھے۔اس زبان میں ایریل ہونانerielhonan کا لفظی مطلب ہے لمبی دم۔ایری اسی لفظ کا مخفف ہے۔ میں نے دور تک پھیلے ایری جھیل کے نیلے پانیوں کو دیکھا اور اس کی سطح کو چھو کر مجھ تک پہنچتی یخ بستہ ہوا کی سرگوشی سنی۔اس سرگوشی میں کہیں ایری قبائل کی صدائیں اور سسکیاں بھی شامل تھیں۔کلیو لینڈکی تاریخ میں کم از کم چار ایسے ریکارڈملتے ہیں جن میں سفید فام یورپی اقوام نے مقامی قبیلوں کا بے دریغ قتل عام کیا تھا۔مرد عورتوں بچوں سمیت۔اس سفید چمڑی پر جو لہو رنگ چھینٹے ہیں کیا وہ کبھی دھل سکیں گے؟ اکتوبر کے آخری ایام ہیں اور زرد، نارنجی ،گلابی ،شہابی اور عنبری رنگ درختوں پر دہکنا شروع ہو چکے ہیں۔یہ آگ ابھی اور آتشی رنگ پکڑے گی کیونکہ آگ کے پاس بیٹھنے کے دن شروع ہو چکے ہیں۔22جولائی 1796ء کو کنکٹی کٹ لینڈ کمپنی نے اس شہر کا نام اپنے لیڈر جنرل موسس کلیو لینڈ کے نام پر رکھا ۔ 1832 ء میں کلیو لینڈ میں تیزی سے آبادی کا اضافہ اس وقت ہوا جب ایک نہر اوہائیو ،ایری کنال کے ذریعے کلیو لینڈبحر اوقیانوس سے جڑ گیا ۔ بعد میں کلیو لینڈ سٹیل کی صنعت اور برآمد کے لیے اہم شہر بن گیا ۔ او رریاست اوہائیو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دیگر ریاستوں پر فوقیت حاصل کرگئی۔ بھاگتے دوڑتے شہروں کی ہنگامہ خیزی سے دور۔ہجوم، شاپنگ مالز اور ٹریفک کی قطاروں سے الگ۔ایک شہر جو ایک زمانے تک آٹو موبائیل انڈسٹری کا بڑا مرکز رہا۔جہاں جنرل موٹرز اور فورڈ نے اپنی شہنشاہیت قائم کی اور جو اب دنیا بھر کے مشہور ترین صحت کے اداروں سے پہچانا جاتا ہے۔ ایسے شفا خانے دنیا بھر میں جن کی مثال کم کم ہے۔اس وقت کلیو لینڈ صحت اور علاج کے شعبے میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔یہ امتیازی حیثیت اسے یونیورسٹی ہاسپٹلز اور کلیو لینڈ کلینک نامی دو بڑے اداروں نے دی ہے۔ شہر میں جابجا انہی دو اداروں کی عمارتیں پھیلی نظر آتی ہیں ماہر ترین ڈاکٹرز اور محقق ان اداروں سے وابستہ ہیںاور کلیو لینڈ ان اداروں پر بجا طور پر فخر کرتا ہے۔ اگرچہ کاروباری مراکز میں دنیا کی بڑی کمپنیاں بھی موجود ہیں لیکن ان خاموش عمارتوں میں گہما گہمی کم کم ہے ۔ ریاست اوہائیو کا دارالحکومت تو کولمبس ہے لیکن کلیو لینڈ اہم ترین شہر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایری جھیل کے ذریعے یہ بحر اوقیانوس سے منسلک ہے اور جہاز اس طرح یہاں آتے جاتے ہیں جیسے یہ شہر خود سمندر کے کنارے ہو۔چونکہ یہ شہر گاڑیوں کی صنعت کا بڑا مرکز رہا ہے اسی لیے یہاں ہنڈا اور ٹویوٹا نے بھی اپنے بڑے پلانٹس لگائے ہیں۔ گاڑیوں کے شورومز کافی تعداد میں ہیں۔گزشتہ رات یہاں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کا سالانہ مشاعرہ تھا جیسا کہ روایت ہے مشاعرے سے پہلے اور بعد میں ظہرانوں اور عشائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس میں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی کمیونیٹیز کے لوگوں سے ملاقات کا موقعہ ملتا ہے۔ادبی تقاریب میں عام طور پر مشترکہ کوششوں سے تقریب کو کامیاب بنایا جاتا ہے۔ آج کل یہاں علی گڑھ کے سابق وائس چانسلرلیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیرالدین شاہ بھی اسی تنظیم کی دعوت پر آئے ہوئے ہیں۔ ضمیر شاہ صاحب معروف ہندوستانی اداکار نصیر الدین شاہ صاحب کے بڑے بھائی ہیں۔نیویارک کے مشاعرے میں بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی اور علی گڑھ میں انکے دور میں جو ترقیاتی کام ہوئے تھے ان کی تفصیل بھی ان سے سننے کا موقعہ ملا تھا۔یہ بات سننا بہت خوشی کا باعث تھا کہ ضمیر شاہ صاحب کے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان بھر کی یونیورسٹیوں میں رینکنگ میں پہلے نمبر پر آگئی تھی ۔ یہ یقینا بڑی کامیابی تھی جس کا سہرا پوری ٹیم کے سر ہے ۔ یہاں اگرچہ پاکستانی برادری چھوٹی ہے لیکن ان میں اہم لوگ موجود ہیں۔ اردو ادب اور شاعری کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کے شعراء یہ مشعل روشن رکھے ہوئے ہیں۔اردو زبان و ادب کے جو فوری خطرات لاحق ہیں اور جو اردو کی نئی بستیوں کوزیادہ درپیش ہیںجن میں امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے بہت سے ممالک شامل ہیں ، یہی ہے کہ نئی نسل اردو زبان سے دور ہے اور اسے تعلیمی لحاظ سے تو اپنانے کی بات الگ ، مادری زبان کے طور پر بھی سینے سے لگانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ۔ یہ مسئلہ اگرچہ پاکستان ہندوستان سمیت دنیا بھر میں درپیش ہے لیکن امریکہ میں خاص طور پر اس کی رفتار تیز ہے ۔ ایسے میں معاشرتی میل جول ، ثقافتی تقاریب،قومی دنوں اور تہواروں کا اہتمام اور مشاعرے ہی وہ دل چسپی کی چیزیں ہیں جن سے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا کام لیا جارہا ہے ۔ یہ الگ بات کہ مشاعروں میں نوجوان نسل کی موجودگی خال خال محسوس ہوتی ہے ۔سوال اور بہت بڑا سوال یہ ہے کہ جب یہ نسل جو اردو زبان و ادب کی پروردہ ہے ،اس سے عشق رکھتی ہے اور اپنے وطن کی جڑیں اپنے اندر اب تک محسوس کرتی ہے ، ختم ہوجائے گی تو اس ثقافت کا کیا ہوگا ؟ کیا اگلی نسل یہ مشعل ہاتھ میں تھام کر دوڑ سکے گی ۔ اس کا جواب آسان نہیں اور سچ یہ ہے کہ جواب سے آنکھیں چرا لینے ہی میں عافیت محسوس ہوتی ہے ۔ ایری جھیل کی برفاب سطح کو چھو کر آتی ہوا نے مجھ سے سرگوشی میں کہا ۔یہاں اسی مٹی پر ایری قبیلہ آباد تھا ۔اس کی ایک زبان اور ایک تہذیب تھی ۔ اس کے اپنے تہوار اور اپنی خوشیاں تھیں۔پھر وقت نے ایک کروٹ لی اور سب مٹ گیا ۔ وہ وقت اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہ کرسکے ۔کیا تم اپنی زبان ، اپنی ثقافت، اپنی تہذیب اور اپنے تہوار بچا پاؤ گے ؟یخ بستہ ہوا میں جسم نے ایک جھرجھری لی اور میں نے آنکھیں بند کرلیں کہ اس کا جواب میرا دماغ دیتا تھا ، میرا دل نہیں ۔