صاحب نے گرم چائے کی چسکی لی، پسندیدگی کا اظہار کیا اور گویا ہوئے ’’1998ء یاد تو ہوگا انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کے واجپائی جی وزیراعظم بن کر دہلی پہنچ چکے تھے اندازہ تھا کہ اب کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا بھارت کی ہندو توا سوچ اب کھل کرکھیلنے کی پوزیشن میں تھی اور پھر ایسا ہی ہوا واجپائی نے ’’پوکھران ٹو‘‘ اور ’’آپریشن شکتی ‘‘کی منظوری دے دی پھربھارت نے گیارہ اورتیرہ مئی1998ء کو راجھستان کے علاقے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے نیو کلیئر کلب کی رکنیت لے لی ،کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کی تیوریاں چڑھ چکی تھیں اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع جارج فرنانڈس نے نہائت متکبرانہ انداز میں چین کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دے ڈالا یعنی وہ اب پاکستان کو کسی گنتی میں ہی شمار نہ کرتے تھے اور مجھے یاد ہے لعل کرشن ایڈوانی جو اس وقت نائب وزیر اعظم تھے نے کہا تھا کہ اب پاکستان کوبھارت کے ساتھ بدلے ہوئے زمینی حقائق سامنے رکھ کر بات کرناہوگی اب بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکاہے ‘‘۔اتنا کہہ کر صاحب نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’اسلام آباد اور راولپنڈی پر بہت دباؤ آچکا تھایہ صورتحال کسی کے لئے قابل قبول نہ تھی ۔دنیا کی نظریں ہم پر تھیں ہمیں ایٹمی دھماکے سے روکنے کے لئے ڈرانے دھمکانے کے ساتھ ساتھ ترغیب و تحریص اور لالچ بھی دی جارہی تھی سبز باغ دکھائے جارہے تھے لیکن ہم نے طے کرلیا کہ جواب دینا ہے اور پھر اٹھائیس مئی کو پاکستان نے بھارت کے پانچ دھماکوں کا جواب سات ایٹمی دھماکوں سے دیا ،الحمداللہ ‘‘ صاحب نے چائے کا کپ خالی کرتے ہوئے ایک طرف رکھ دیامیں ان کی جانب ہی متوجہ تھاوہ جو کہتے ہیں ناں کہ سوئی بھی گرے تو آواز آئے تو کمرے میں ایسے ہی خاموشی تھی میں منتظر نظروں سے صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا میں جانتا تھا کہ جو کچھ صاحب نے ابھی بیان کیا یہ تمہید ہے اصل بات کچھ اور ہے اور ایسا ہی تھا ،صاحب نے ٹھوڑی پر آئے ہوئے ماسک سے ناک اور منہ چھپاتے ہوئے کہا ’’ستائیس اور اٹھائیس مئی کو کچھ او ر بھی ہوا تھا جسکی خبر کم لوگوں کو ہے ،آدھی رات کو اسلام آباد میں دوست ملک ترکی کے سفیرکو نیند سے جگایا گیاا ور بھارت کے سفیر کو بھی طلب کیا گیا ،بھارتی سفیرسے کہا گیا کہ سری نگر ائیرپورٹ پر اسرائیلی ائیرفورس کے طیارے کھڑے ہیں ہمیں علم ہے کہ وہ کسی بھی وقت وہاں سے ٹیک آف کرکے پاکستان کی انتہائی حساس تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے ایسا ہوا تو اسے پاکستان کھلی جنگ ہی سمجھے گا اور اسکا بھرپو ر جواب دیاجائے گا،بھارتی سفیر نے اسرائیلی طیاروں کی موجودگی سے انکار کیا تو اسے وہ وڈیو کلپ دکھائے گئے جس میں سری نگر ائیربیس پر ایف سولہ کھڑے ہوئے تھے ان کی دم پر اسرائیل کے بجائے بھارتی ترنگا پینٹ تھا ،بھارتی سفیر سے کہا گیازرا یہ تو بتائیں کہ یہ ایف سولہ انڈین ائیر فورس کے پاس کب آئے ؟ اسکے پاس کوئی جواب نہ تھا،ترکی ہمارا دوست ملک تھاجس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں اسکے ذریعے ترک حکومت کو اعتماد میں لیا گیااور پھر ترکی نے تل ابیب کو پاکستان کا پیغام پہنچایا کہ اگر اسرائیل کوئی ایڈونچر کرنا چاہتاہے تو ہم تیار ہیں اور پھر اسے بھی ردعمل کے لئے تیار ہونا چاہئے اس وارننگ کے بعد اسرائیل کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ پاکستان کا رخ کرے ،میرے ایک روم میٹ تھے جن کا انتقال ہو گیا ہے اللہ ان کی مغفرت فرمائے انہوں نے خود مجھے بتایا کہ ایک بار راڈار نے کچھ مشکوک طیاروں کی نشاندہی کی یہ اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیارے تھے ہماری ائیر فورس دو اطراف سے ائیر بورن ہو کر فضاؤں میں پہنچ گئی اور انہیں حوصلہ نہ ہوا کہ وہ پاکستان میں داخل ہوتے اور یہ توابھی تیس نومبر کی بات ہے بھارت کے ہندوستان ٹائمز نے سرخی جمائی کہ Pakistani fighter jet spotted close to LoC in Poonch یاد ہے اسے سے پہلے اپریل میں انڈین ائیر چیف نے کیا کہا تھا اسکا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ایک باررافیل آلینے دو پھر پاکستان ایل او سی کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا اور آج ہم ان کے فضائی سرحدپردلیرانہ گھوم رہے ہیں یہ سب بتانے کا ایک مقصد ہے لیکن پہلے یہ بتائیں پاکستان کو چھوڑ کر کسی ایک اسلامی ملک کا بتائیں جس نے ایٹمی قوت بننے کا فیصلہ کیا ہو اور بن گیا ہو،اچھا وہ عراقی سائنسدان یحیٰ المشہدکے ساتھ کیا ہوا تھا؟صاحب نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھامیں نے ذہن پر ذور دیا لیکن میرے حافظے نے ساتھ نہ دیا قبل اسکے کہ میں اپنی لاعلمی کا اظہار کرتاصاحب خود ہی بتانے لگے یہ عراق کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ،مصری شہریت کے حامل اور عراق کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں میں سے تھے یہ تب کی بات ہے جب عراق کے فرانس کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے اس نے عراق کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا اسرائیل نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ یہ معاہدہ نہ ہو لیکن ہو گیا اسکے بعد ’’موساد‘‘ نے یحیٰ المشہد کو گھیرنے کی کوشش کی اس میں بھی ناکام رہا تو اس نے پھر انتہائی قدم اٹھایا اسرائیل کے ایجنٹوں نے فرانس کے ہوٹل میں گھس کر یحیٰ المشہد کولوہے کی سلاخیں اور ہتھوڑے مارمار کر قتل کردیالیکن عراق پھر بھی نہ رکا تو سات جون 1981کو اسرائیلی طیاروں نے آسرک کے مقام پر عراق کی ایٹمی تنصیبات تباہ کردیں اسرائیل ریڈیونے اسکا فخریہ اعلان بھی کیاتھا،بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ ایک طرف ہمارے ساتھ ہندوستان جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف اسرائیل بھی ہمیں خطرہ سمجھتا ہے اسکا صاف کہناتھا کہ وہ کسی اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت بننے نہیں دے گا یہ اسکی سلامتی کے لئے خطرناک ہوگا ،اب زرا سوچئے گا کہ پاکستان کے عبدالقدیر خان صاحب اور دیگرایٹمی سائنسدا نوں کی ہم نے کس طرح حفاظت کی اور اپنی ایٹمی تنصیبات کو کیسے بچایا یہ کوئی معمولی بات نہیں اور آج ہمارے سیاستدان وطن کے ان محافظوں کوہی نشانہ بنا رہے ہیں ! جانے کیا کچھ ہانکتے پھر رہے ہیں وہ ایک ایاز صادق صاحب ہیں فرما گئے کہ بھارتی حملے کا سن کر ہماری ٹانگیں کانپنے لگ گئی تھیں ادھر یہ مریم بی بی اور مولانا فضل الرحمان صاحب روزانہ کی بنیادوں پر ادادروں کے خلاف چاند ماری کررہے ہوتے ہیں ،میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یہ ضرور تنقید کریں انکی روزی روٹی ہے لیکن جہاں ملکی سلامتی کی بات ہو وہاں تو انہیں سوچ سمجھ کر منہ کھولنا چاہئے ۔