ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسا نہیں ہوتا صنم سکھلائیں گے راہ خدا ایسا نہیں ہوتا اپنے محترم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے دہائی سے اوپر نیاز مندی ہے۔ سیاسی فضا اتنی گرما گرم بلکہ سوانیزے پر پہنچی ہوئی ہے کہ براہ راست مشورہ دینے کے بجائے شاعرِ بے مثال فیض احمد فیض کے شعر کا سہارا لے رہاہوں۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ الیکشن کے اس بیچ ہنگام میں محترم خان صاحب کو کہاں فرصت کہ قلم کی گھسائی کرنے والوں کی بات پر دھیان دیں۔ پھر معذرت کے ساتھ یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدانوں کی طرح محترم خان صاحب کی شعرفہمی کا خانہ خالی نہ ہو۔۔۔ اس سے پہلے کہ خان صاحب کو دینے والے مشورے کی طرف آؤں ذرا یہ بھی گوش گزار کرتا چلوں کہ بد قسمتی سے سیاستدانوں، سرکاری افسروں اور ہاں خود ہماری یعنی خاص طورپر الیکٹرانک میڈیا میں بھی وہ پیڑھی اٹھتی جارہی ہے کہ جس کو ادب خاص طورپر شعر پڑھنے اور سننے کا ذوق ہواکرتا تھا۔ مگر پھر یہ بھی تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شاعروں کی وہ پیڑھی بھی کہاں کہ جن کے اشعار نہ نشر ہوتے تھے اور نہ کسی اخبار میں جگہ پاتے مگر ان میں اتنی طاقت ہوتی تھی کہ سینہ بہ سینہ چل کر یہ خلق خدا کی زبان بن کر حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑادیا کرتے تھے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اکتوبر1958ء میں مارشل لاء لگایا تو سب سے پہلے اس وقت کے نڈر سیاسی رہنما میاں افتخار الدین نے ان اخبارات و جرائد پر ضرب کاری لگائی جن کے مدیر مظہر علی خان ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی ہوتے تھے ، ایوبی فوجی آمریت میں ان صحافیوں، شاعروں، سمیت سینکڑوں اہل قلم کو ان کی تحریروں سمیت پابند سلاسل رکھاگیا اور پھر بد قسمتی سے اس کے نتائج بھی مثبت نکلے کہ جب جنرل ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات اور ادیب دانشور قدرت اللہ شہاب نے رائٹرز گلڈکی بنیاد رکھی تو کیا بائیں کیا دائیں بازو سب ہی نے مارشلائی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ تو ساٹھ کی دہائی میں لاہور کے دو کرائے کے کمرے میں رہنے والے سر پھرے شاعر حبیب جالب کو سلام بلکہ سلیوٹ کریں کہ جنہوں نے ؎ ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا جیسی نظم لکھ کر مزاحمتی شاعری کی بے مثال تاریخ رقم کی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایک مشیر اور خود صحافی و ادیب الطاف گوہر سے روایت ہے کہ اس وقت کے طاقتور ترین گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ نے الطاف گوہر کو گورنر ہاؤس طلب کرکے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا’’گوہروا‘‘ یہ کون شاعر ہے جو کہتا پھرتا ہے میں کالا باغ کو نہیں مانتا۔۔۔اس کی کوئی زمین ہو تو ضبط کردو کوئی نوکری ہو تو نکلوادو۔ پھر بھی نہیں مانے تو اندر کردو، الطاف گوہر جو جالب صاحب کے بھی دوست تھے بڑے مودبانہ انداز میں کہتے ہیں۔ نواب صاحب یہ سب کرکے دیکھ لیا مگر وہ مانتا ہی نہیں۔ الطاف گوہر کہتے ہیں۔ نواب کالا باغ اپنے سرخ و سفید چہرے پر سجی مونچھوں کو مروڑتے ہوئے کہتے ہیں۔’’اچھا بھئی‘‘ یہ تو کوئی پاگل لگتاہے۔ اس کو مینٹل ہسپتال میں داخل کردو۔ اور وہاں الطاف گوہر ہی راوی ہیں کہ جب ایوب خان اقتدار سے محروم ہوگئے تو ایک دن انہیں گھر میں بلاکر کہا۔ کہاں ہے وہ شاعر جو میرے دور میں کہتا تھا۔ بیس روپے من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا اب بھٹو کے دور میں تو آٹا40روپے من ہے۔ اب وہ نہیں لکھتا۔ الطاف گوہر کہتے ہیں کہ میں نے ایوب خان سے کہا۔ وہ شاعر اب بھی لکھتا ہے۔ اور اسی لئے جیل میں ہے۔ بھٹو صاحب کی حد تک کہاجاسکتا ہے کہ وہ لٹریچر کے آدمی تھے۔ جالب صاحب سے تعلقاتLove/Hate کی ایک لمبی کہانی ہے جسے آئندہ تفصیل سے لکھوں گا۔ کہ دیکھیں بات فیض صاحب کے ایک شعر سے شروع ہوئی تھی جس سے میں محترم عمران خان کو ان کے نامزد کردہ10امیدواروں کی فہرست دیکھ کر مشورہ دینے بیٹھ گیا تھا۔ مگر ہاں زیادتی ہوگی کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کا ذکر نہ کروں کہ آخری پیڑھی کے سیاستدانوں میں وہ شعر کہتے بھی تھے اور شعر فہمی کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ اب جہاں تک اس مشورے کا تعلق ہے کہ جو میں خان صاحب کو دینا چاہتا تھا تو ایک تو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ خیر سے انہیں فرصت کہاں۔ ان کے پر جوش ترجمان محترم فواد چوہدری تک ضرور پہنچ ہے۔ مگر صحافت اور سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے اتنا علم ضرور رکھتا ہوں کہ ان کا یہی جواب ہوگا کہ بھئی خان صاحب نے2008ء اور2013ء کے انتخابات سے بہت کچھ سیکھ لیاہے۔ اب’’الیکشن لڑنے کامقصد‘‘ الیکشن جیتنا ہوتا ہے اور یہ جیت صرف الیکٹ ایبلز سے ملتی ہے۔’’ ELECTABLES ‘‘یعنی یقینی کامیاب امیدوار کی اصطلاح پہلے ’’موروثی‘‘ معنوں میں لی جاتی تھی۔ یعنی وہ فیوڈل، نواب سردار گھرانے جن کی کامیابی ان کی زمینوں، جائیدادوں اور ہاریوں کے زور پر ہر دور میں یقینی ہوتی تھی۔ ہاں’’1970ئ‘‘ میں ضرور ایک معجزہ ہوا جب بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی کے درمیانہ درجے کے جیالوں نے پنجاب کے جدی پشتی گھرانوں کے برج الٹ دیئے تھے۔ کیا دولتانے، کیا ٹوانے، کیا گیلانی، کیا قریشی، چھٹے۔ مگر مارچ1971کے آتے آتے یہ سب پیپلزپارٹی کے اندر اور ان کو شکست دینے والے محنت کش مڈل کلاسیے جیالے پارٹی سے باہر ہوچکے تھے1971ء سے لے کر نوے، ستانوے، دوہزار دو، دوہزار آٹھ، اور دو ہزار تیرہ کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے80فیصد کامیاب ایم این اے، ایم پی اے ، یہ ELECTABLES"‘‘یعنی بڑے نواب، سردار، جاگیردار خاندانوں کے آل اولاد میں سے ہی ہوں گے۔ چودہ سال کی مارکے بعد جب ن لیگ نے2013ء میں ٹکٹ دیئے تو ان میں69کا تعلق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی لیگ سے تھا۔ ہاں یہ تحریک انصاف ہی تھی جس کے ایک دو کوچھوڑ کر کامیاب ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق نوجوان، ایماندار قیادت سے تھا۔پھر یہ بھی حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پنجاب میں محدود پیمانے پر ہی صحیح اگر پینتیس نہیں تو15بیس پنکچر ضرور لگائے گئے جس کے ردعمل میں ہمارے خان صاحب نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا بھی دیا۔ مگر دھرنے کا انجام جس طرح ہوا اس نے یقیناخان صاحب کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ شریف خاندان کو اقتدار سے نکالنے کے لئے سڑکوں کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ انکا ساتھ نہیں دے گی۔ اور پھر اسی سبب 2018ء کے الیکشن کے آتے آتے خان صاحب اس نتیجے پر پہنچ چکے کہ اسلام آباد کے تخت پر بیٹھنے کے لئے ’’ ELECTABLES ‘‘ پر انحصار کرنا ہوگا۔تحریک انصاف کے دیئے گئے ٹکٹوں پر نظر ڈالیں۔۔۔خاص طورپر پنجاب میں۔۔۔ اس میں اکثریت نون لیگ، ق لیگ اور ناراض جیالوں کی نظر آئے گی۔ اس لئے بصد احترام خان صاحب۔۔ان کے ذریعے آپ وہ تبدیلی نہیں لاسکتے جس کے لئے آپ نے اپنی جوانی کی دو دہائیاں خون پسینا بہاتے گزاردی۔