امریکہ کی نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز کے تازہ بیان سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ امریکہ چین کے پاکستان کے تعلقات کے بڑھنے سے شدید تشویش میں مبتلا ہے۔وہ چین کی گواداربندرگاہ تک رسائی سے پریشان ہے۔ اب تک وہ چینی سرمایہ کاری کے پروگرام سی پیک کی ڈھکی چھپی مخالفت کرتا آرہا تھا لیکن اب پہلی بار کسی بڑے امریکی عہدہ دار کی جانب سے اس پر کھلم کھلا‘ تلخ تنقید ہوئی ہے۔ پاکستانیوں کو ڈرانے کے لیے ایلس ویلز نے کہا کہ سی پیک پاکستان کوقرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا دے گا اور یہ کہ طویل مدت میں پاکستان کو سی پیک سے معاشی نقصان زیادہ ‘ فائدہ کم ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اگلے چار سے چھ سال میںجب پاکستان کو سی پیک کے قرضے واپس کرنا ہوں گے تو پاکستان کی معیشت دباو میں آجائے گی۔انہوں نے پاکستان کو متبادل معاشی امداد کے پروگرام کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے اور امریکی حکومت کی گرانٹس سے پاکستان کی خراب معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کوچین کے خلاف اُکساتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چینی سرمایہ کاری سے انہیں روزگار نہیں مل رہا۔ حالانکہ بعد میں چینی حکام کے جوابی بیان میں واضح کیا گیا کہ سی پیک سے اب تک ستّر ہزار پاکستانی شہریوں کو روزگار مل چکا ہے۔ ایلس ویلز کے بیان کے جواب میںپاکستان میں چینی سفیر یاو ژنگ نے بالکل ٹھیک کہا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں ہے۔ اس میں دونوں کی جیت ہے۔ پانچ چھ سال پہلے ہمارا ملک بجلی کی قلت کے باعث اندھیروں میں ڈُوبا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ بجلی کا بحران دہائیوںتک حل نہیں ہوسکے گا لیکن چینی کمپنیوںنے دھڑا دھڑ بجلی کے منصوبے لگا کر پاکستان کو اندھیروں سے نجات دلائی۔ چین کی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے کہ آج لاہور سے سکھر تک چھ رویہ موٹر وے بن چکی ہے۔ بارہ گھنٹے کا سفر چھ گھنٹے کا رہ گیا۔ یہ وہ ٹھوس ترقی ہے جو صدیوں تک ہمارے کام آئے گی ۔ اس کے برعکس امریکہ کی سرمایہ کاری پر نظر ڈالیں تو وہ صرف تجارت ہے؟ ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنیوںنے پاکستان میںسوا ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ماضی میں امریکہ نے پاکستان کی خاصی مدد کی کیونکہ وہ کمیونسٹ روس کے مقابلہ میں پاکستان کو فرنٹ لائن ریاست سمجھتا تھا۔ امریکہ نے ہمیں ورلڈ بنک سے امداد دلوا کر منگلا اور تربیلا ڈیم بنانے میں مدد کی۔کھاریاں کینٹ کا شہر بنایا۔ زراعت کو جدید بنانے اور گرین انقلاب لانے میں ہماری مدد کی۔ہماری فوج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کیا‘ ہمارے فوجی افسروں کو امریکہ بلا کر تربیت دی جس کی وجہ سے ہم اپنے سے چھ گنا بڑے ملک بھارت کا مقابلہ کرسکے۔لیکن کمیونسٹ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے ہم سے فوراً آنکھیں پھیر لیں۔ہماری مالی‘ سفارتی امداد بند کردی۔ ستمبر دو ہزار ایک میں امریکہ میں حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر جنگ کی تو ایک بار پھر ہم سے اتحاد کیا‘ ہم سے معاشی تعاون بڑھایا لیکن پہلے صدر اوبامہ نے پاکستان سے اشتراک میں کمی کی‘ بعد میںصدر ٹرمپ نے اسے بالکل ختم کردیا۔ گزشتہ دہائی میں جُوں جُوں چین کی اقتصادی طاقت میںاضافہ ہوا امریکہ نے چین کو قابُو کرنے کی خاطر بھارت کو اپناقریب ترین اتحادی بنا لیا۔اِس خطہ میںاپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اسے ایٹمی ٹیکنالوجی سمیت جدید ترین اسلحہ سے لیس کردیا۔ہر سفارتی فورم پر اسکا ساتھ دیا۔جبکہ چین نے سلامتی کونسل سمیت ہر جگہ ہمارا ساتھ دیا۔ چین نے پاکستان کو ایسے بحری جنگی صلاحیت سے لیس کردیا ہے جس کے بعد بھارت کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں ہماری بحری ناکہ بندی کرسکتا ہے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ معاشی طور سے کمزور پاکستان آنکھیں بند کرکے امریکی حکومت کی ہر شرط مان لے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔امریکہ نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھ کر جزوی طور پر اقتصادی پابندیاں لگا کر دیکھ لیا۔ اگر چین‘ ترکی اور ملائیشیا کی مدد شامل نہ ہوتی تو امریکہ تو ایف اے ٹی ایف کی سیاہ لسٹ میں ڈلوا کر ہماراگلا ہی گھونٹ دیتا۔ آئی ایم ایف کے ذریعے سخت ترین شرائط پر قرض دے کر بھی امریکہ نے ہمیں آزما لیا لیکن پاکستان نے اس کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات بڑھتے چلے گئے ‘ پاکستان بیشتر معاشی مشکلات سے آہتہ آہستہ نکل گیا اور کچھ سے نکلنے والا ہے۔ امریکہ خوفزدہ ہے کہ چین کا سی پیک پروگرام دراصل اس کے بڑے منصوبہ کا حصّہ ہے جس کا نام ون بیلٹ اینڈ روڈ ہے۔ اس کے تحت چین سمندری تجارتی راستوں کی بجائے دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں کو سڑک اور ریل کے ذریعے ایک دوسرے منسلک کررہا ہے ۔یُوں چین اوریہ ممالک ایک بڑی منڈی بن جائیں گے جو تقریبا پانچ ارب لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ ان ملکوں کا سارا انحصار اُن سمندری راستوں پر نہیں رہے گا جن کاامریکہ تھانیدار بنا ہُواہے۔ اگر پاکستان میں صنعتی ترقی ہوگئی تو اس مارکٹ کا فائدہ ہم بھی اُٹھا سکتے ہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین کو گوادار بندرگاہ تک رسائی ملے ‘ وہ اسے استعمال کرے۔ یہ وہ تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت کا سمندری مقام ہے جہاں سے دنیا کا اسّی فیصد تیل گزرتا ہے۔امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے خلاف اسکے اتحاد میں شامل ہوجائے‘ سی پیک پر کام روک دے۔ امریکی پلان کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پاکستان خطّہ میں بھارت کی برتری تسلیم کرلے‘ یعنی مسئلہ کشمیر پر بھارت کی بات مانے‘ اپنا ایٹمی پروگرام ترک کردے۔ پاکستان کیلیے یہ ممکن نہیں۔ پاکستان اور بھارت دو مختلف تہذیبوں کے نمائندہ ملک ہیں۔ ان دو ملکوں کے تضادات بہت تاریخی اور گہرے ہیں۔ ہم امریکہ کی خواہش پر اس علاقہ میں بھارت کی برتری‘ تھانیداری تسلیم نہیں کرسکتے۔ ہم چین ہماراقابل اعتماد دوست ہمسایہ ملک ہے۔ہم اس کے خلاف امریکہ کے اتحادی نہیں بن سکتے۔ ایلس ویلز اپنے لالی پاپ اپنے پاس رکھیں۔