(شوکت مہر صاحب ایک سینئر وکیل، قانون دان ،مفکر اور دانشور ہیں، انہیں صرف تاریخ سے ہی نہیں، شعر و ادب ، موسیقی اور سیاست سے بھی گہرا لگاؤ ہے۔ پیانو بڑا زبردست بجاتے ہیں، بہت بے باک اور جی دار دوست ہیں۔ دنیا بھر سے معلومات کے ذخیرے ان کے پاس ہیں، حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، شوکت مہر صاحب نے ہمیں ایک مکتوب بھجوایا ہے جسے ہم آج کے کالم میں من و عن شائع کر رہے ہیں) ٭٭٭٭٭ 1973ء میں جب عرب، اسرائیل جنگ دیوار پر لکھی جا چکی تھی۔ جنگ سے پہلے ایک امریکی سینیٹر اسرائیل پہنچا، وہ سینیٹر کانگرس کی اسلحہ کمیٹی کا سربراہ بھی تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی چوتھی وزیراعظم ’’گولڈا میئر کے پاس لے جایا گیا۔ گولڈا میئر نے ایک گھریلو عورت کی طرح اس امریکی سینیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی۔ جہاں اس نے امریکی سینیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں بیٹھ گئی اور واشنگٹن سے آنے والے مہمان کے ساتھ طیاروں، میزائلوں اور توپوں کی خریداری کے حوالے سے مذاکرات شروع کر دیے، ابھی سودے بازی جاری تھی کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ گفتگو ادھوری چھوڑ کر اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک پیالی سینیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سینیٹر سے محو گفتگوہو گئی۔ چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈا میئر اٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سینیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ’’مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجیئے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ گولڈا میئر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور جواباً کہا : ’’آپ کا خدشہ درست ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔ جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈا میئر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا: ’’امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی؟ ‘‘گولڈا میئر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ وہ بولی : ’’میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے آخری نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں جب طالبہ تھی اور اس کے بعد معلمہ بنی تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ۔۔جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل تک خریدا جا سکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو یا سات تلواریں لٹک رہی تھیں لیکن انہیں رہن نہیں رکھا گیا تھا۔۔۔۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو سوچا ،، دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح بنے، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، گولڈا میئر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اس کے انکشاف کو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ رکھا جائے۔ کیونکہ نبی آخر الزمانؐ کا نام لینے سے جہاں اس کی یہودی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔۔۔۔۔۔۔وقت گزرتا رہا، گولڈا میئر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا، برسوں بعد ایک اورصحافی،،، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں،،، کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے بھی پہنچا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈا میئر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈا میئر کے انٹرویو کے اس حذف شدہ حصے کو بیان کر دیا، جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا۔ گولڈا میئر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: ’’میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس تک نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ اس امریکی صحافی نے ایک فقرہ یہ بھی بولا۔۔۔۔ ’’تاریخ صرف فتوحات گنتی ہے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔ گولڈا میئر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں شائع ہوا تو دنیا اس حقیقت کو جان گئی کہ چودہ سو سال پہلے ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، کس طرح جہاں بان بن گئے تھے، تاریخ ہی ہمیں بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی ننگی تلوار نے کس طرح چار براعظم فتح کئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ تاریخِ کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب مستعصم باللہ ، آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دیئے۔ پھرمستعصم سے کہا: ’’جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اْسے کھاؤ!‘‘۔ بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: ’’میں سونا کیسے کھاؤں؟‘‘ ہلاکو نے فوراً کہا ’’پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟‘‘۔ وہ مسلمان جسے اْسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ’’تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘۔ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔ ’’اللہ کی یہی مرضی تھی‘‘۔ ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ’’ پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے ، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی‘‘۔ پھر ہلاکو خان نے مستعصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا ’’ آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔‘‘