اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر اور روز حشر اللہ انہیں سید الانبیاء خاتم النبین ‘ شافع روز حشر حضرت محمدﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے اور ان کی کاوشوں سے خوش ہوتے ہوئے اس خوشی کے صدقے ہماری بھی بخشش فرمادے۔ ہمارے گناہوں کوتاہیوں اور عیوب سے درگزر فرما دے۔ پتہ نہیں کیوں میں یہ سطریں تحریر کر رہا ہوں تو میری آنکھوں سے آنسو مسلسل بہے جا رہے ہیں۔ میں اپنے اس قلم کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ چند جملے بھی اس شخص کی تعریف و توصیف میں تحریر کرے جسے اللہ نے اتنا بڑا فیصلہ لکھنے کی توفیق اور جرأت عطا فرمائی۔ یہ تو میرے اللہ کا کرم ہے ‘ فضل ہے جس پر ہو جائے۔ ایک سو بہتر صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے آخر میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے نام کو میں نے بوسہ دیا اور دیر تک اس نام کو دیکھ کر رشک کرتا رہا۔ اللہ ان سے خوش ہو اور جس لمحے وہ ان پر رحمتوں کی بارش فرمائے‘ میرے جیسے گناہ گار کی بھی مغفرت فرما دے۔ آج سیدنا عمرؓ یاد آ رہے ہیں کہ جب بارش نہیں ہوتی تھی تو سید الانبیاء ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کو ساتھ لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہم ان کے وسیلے سے تجھ سے بارش کی دعا کرتے ہیں اور اللہ بارش برسا دیتا۔ میں نے اس فیصلے اور اس کے لکھنے والے کے وسیلے سے مغفرت چاہی ہے۔ اللہ مجھے ضرور معاف کرے گا۔ یہ فیصلہ کیا ہے میں چونکہ قانون کا طالب علم ہوں اس لیے مجھے اس کا اندازہ ہے۔1974ء میں جب قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو عرف عام میں یہ تصور عام کر دیا گیا تھا کہ یہ ایک اقلیت ہیں اور ان کی حیثیت و مرتبہ‘ مقام اور حقوق اقلیتوں والے ہیں۔ چونکہ پاکستان کا آئین بنیادی طور پر جمہوری ہے‘ جسے اسلامی جبہ و دستار پہنائی گئی ہے اس لیے اس میں حقوق اقلیت اور دیگر ایسے تمام تصورات عالمی قوانین سے لیے گئے ہیں حقوق نسواں سے لے کر مذہبی آزادی‘ تحریر و تقریر سے لے کر کم عمری کی شادی پر پابندی تک تمام تصورات کا مآخذعالمی قوانین کا ذخیرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیت کا لفظ بولنے سے قادیانیوں کے بارے میں بھی وہ تمام حقوق ذہن میں آ جاتے ہیں جن میں اپنے عقیدے کا پرچار، رسومات کی آزادی اور دیگر ایسے تمام تصورات شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام این جی اوز سول سوسائٹی اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے قادیانیوں کو اسی پیمانے پر ناپتے ہیں اور ان کے لیے ویسی ہی برداشت ‘ رواداری اور حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جیسا ہندو‘ عیسائی ‘ بدھ مت یا پارسی اقلیت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس فیصلے سے پہلے اس ملک میں یہی کنفیوژن پھیلایا جاتا تھا۔ قادیانیوں کا مسئلہ اور معاملہ اقلیت کا نہیں بلکہ اقلیت وہ اس لیے کہلائے کہ انہوں نے جعل سازی Counterfeitطریقے سے اسلام سے مشابہ اسلام کی ایک نقل تیار کرنے کی کوشش کی۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک اعلیٰ برانڈ کی گھڑی کی نقل تیار کی جائے تو اس کی بظاہر شکل و صورت رنگ و روپ یہاں تک کہ اس پر برانڈ کی مہر بھی ویسی ہی ہوتی ہے لیکن اس کے نہ پرزے اس معیار کے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ان کوالٹی کے اصولوں پر بنائی گئی ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی مہذب ‘ غیر مہذب‘ ترقی یافتہ ‘ غیر ترقی یافتہ ملک میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ تم بھی اصل گھڑی بناتے جائو اور یہ بھی جعلی بناتا جائے اور نام بھی تمہارا رکھے مگر تم اکثریت ہو اور یہ اقلیت‘ اب جو کوئی چاہے اکثریت کی دکان سے مال خریدے یا جعل ساز اقلیت کی دکان سے ۔یہ تو صرف ایک بے جان صنعت کی بات ہے کہ بازار میں جعل سازی کو قانونی اجازت کسی ملک میں نہیں ملتی۔ یہاں تو معاملہ عقیدے‘ مذہبی خالص پن اور اُخروی نجات کا تھا۔ یہاں اقلیت کہلا کر اپنا عقیدہ قائم رکھنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ آپ اپنا برانڈ نام یعنی اسلام‘ اپنی وضع قطع شکل و شباہت‘ شناختی علامات اور اصطلاحات تک مسلمانوں سے مختلف رکھیں گے تو اقلیت کہلانے کے حقدار ہوں گے ورنہ آپ کی حیثیت ایک جعل ساز کی رہے گی۔ 1974ء کی ترمیم میں یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی لیکن اللہ نے یہ توفیق ضیاء الحق شہید کو عطا فرمائی۔ اللہ انہیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے اور ان کی غلطیوں سے درگزر فرمائے۔ یہی دعا ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی تمام پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے بھی ہے وہ غفور الرحیم ہے‘ بخشنے والا اور عطا کرنے والا ہے۔ ضیاء الحق نے آئینی ترمیم اور قوانین کے ذریعے قادیانیوں کو اس جعل سازی سے روکا اور ساتھ ہی ایک حلف نامہ بھی ضروری قرار دے دیا جس کے ذریعے الگ اپنے قادیانی عقیدے کا اعلان کرنا تھا۔ اکثر ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے اور دنیا کے سامنے یہ تصور پیش کیا جیسے وہ اگر پاکستان میں رہے تو قتل کر دیے جائیں گے ۔جو یہاں رہے وہ یا تو یہ حلف نامہ پُر کرتے یا پھر خاموشی سے اپنے عقیدے کو چھپا کر بظاہر مسلمان نظر آ کر جعل سازی کا مرتکب ہوتے رہتے۔ مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز اور واجد شمس الحسن کا نام تو فیصلے میں بھی دیا گیا ہے۔ ضیاء الحق کی ترمیم کے بعد پہلی دفعہ یہ سازش ایک سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کی تھی کہ عوامی نمائندگی کے حلف نامے سے قادیانیت کا انکار و اقرار نکال کر ان کے لیے راہ ہموار کی گئی تھی۔ ضیاء الحق کو علم ہوا تو اس نے اسے برطرف کر دیا۔ اس کے پینتیس(35) سال بعد میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں وزارت قانون نے دوبارہ انہیں یہ راستہ دینے کی سازش کی اور وہ پارلیمنٹ میں منظور تک ہو گئی۔ شوکت صدیقی صاحب نے اس سازش کو سوچی سمجھی اور ترغیب والی کوشش dliberate and motivated effortکہا ہے۔ جو اس بات کو ڈرافٹ کرنے والوں نے کی تاکہ قادیانیوں کی علیحدہ شناخت کو ختم کر کے انہیں عام مسلمانوں میں ضم کیا جائے۔ فیصلے میں ان تمام قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے جن سے ایک قادیانی مسلمان ہونے کی جعل سازی کر کے ان سے استفادہ کر سکتا ہے۔ ان میں شادی بیاہ‘ وراثت‘ تدفین سے لے کر طرز زندگی کے تمام قوانین اس پر لاگو ہوں گے اور وہ ان قوانین کی پابندی کرتے ہوئے ویسا ہی مسلمان کہلائے گا جیسے سب ہیں اور کوئی اس جعل سازی کو نہیں پکڑ سکے گا۔ فیصلے میں وہ ہوشربا اعداد و شمار بھی دیے گئے ہیں کہ کیسے قادیانی تمام زندگی مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر نوکریاں کرتے ہیں اور آخر میں ریٹائرمنٹ کے بعد مذہب تبدیل کر لیتے ہیں۔ نادرا کے مطابق 10205افراد نے اسلام چھوڑ کر قادیانیت قبول کی۔1981ء میں ان کی کل تعداد 104,244تھی اور 1998ء کی مردم شماری میں یہ تعداد 2,86,212ہو گئی۔ اس فیصلے میں جہاں نواز حکومت کی وزارت قانون کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے وہاں اراکین پارلیمنٹ کی قانون سازی کے وقت غفلت کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو عام کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اللہ کرے کوئی فیصلے کا اردو ترجمہ کر کے خلق خدا کے لیے چھاپے تاکہ لوگوں کو ان چہروں کو پہچاننے میں آسانی ہو جنہوں نے ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی سوچی سمجھی کوشش کی۔ میراا للہ جلد ان کے انجام کو اس ملک میں عبرت کا نشان بنائے گا۔ بہت جلد۔