ورلڈ کپ میں ’’سلیکٹڈ لاڈلوں‘‘ کی شاندار پرفارمنس پر ساری قوم نیک ’’خواہشات‘‘ ارسال کر رہی ہے۔ آپ بھی کم از کم اتنی سی فراخدلی تو دکھائیے کہ بھارت سے صرف 89رنز کی شکست پر شاباش دے دیں‘ وہ سنچری سے بھی تو ہار سکتے تھے۔ بہرحال کہنے کی بات یہ ہے کہ دونوں کپتان معرکے پر معرکہ مار رہے ہیں اور ابھی تو سامنے معرکتہ الآرائیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ دو کپتانوں سے مراد ایک تو کپتان خان ہیں اور دوسرے کپتان مانی۔ کپتان مانی کے کیا کہنے اور کپتان خان کے تو کیا ۔ہی۔ کہنے۔ دونوں کی سلیکشن کرنے والوں کو سب کا سلام۔ ٭٭٭٭٭ یہ تو بس تمہیدی سطریں تھیں‘ اصل آمدم برسر مطلب یہ تھا کہ خیر سے کپتان خاں اپوزیشن کا رام نام ستیہ کرنے کے لئے کوئی کمشن بنانے والے ہیں۔ تحقیقات اس بات کی ہوں گی کہ نواز شریف نے 24ارب ڈالر کا قرضہ کیسے ہڑپ کیا۔ اصل میں تو قرضے کی مالیت 17ارب ڈالر ہے‘ آٹھ ارب زرداری دورمیں لئے گئے۔9ارب نواز دور میں دونوں کا ٹوٹل وہ کہتے ہیں کہ 17نہیں 24ارب بنتاہے تو مان لیجئے اتنا ہی بنتا ہو گا۔زرداری دور میں لئے جانے والے آٹھ ارب چونکہ صادق و امین مشیر وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے اہتمام میں لئے گئے تھے اس لئے ان میں کرپشن کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یعنی یہاں یہ بات ماننا پڑے گی کہ یہ 8ارب کی رقم جوں کی توں محفوظ رہی اور نواز شریف حکومت میں آ گئے تو 8ارب کی اس محفوظ رقم کو اپنے دور میں لئے گئے 9ارب ڈالر سمیت کہ ٹوٹل جن کا 24ارب بنتا ہے۔ ہڑپ کر گئے یعنی منی لانڈرنگ کر دی اور اس سے لندن کے وہ چار فلیٹ بنا لئے بیک ٹو دی پاسٹ میں جا کر یعنی 1990ء کی دہائی میں حیرت کی کیا بات ہے‘ سائنس کا دور ہے اور سائنس میں بھلے ہی ایسا نہ ہوتا ہو لیکن سائنس فکشن میں تو ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ کمشن اب تک بن جاتا لیکن دو مسئلے ہو گئے۔ ایک یہ کہ کپتان خاں کا ارادہ تھا کہ یہ کمشن ان کی سربراہی میں بنے۔ انہیں بتایا گیا کہ قانون میں (فی الحال) اس کی گنجائش نہیں۔ جس پر وہ بہت بھنائے پھر طے کیا کہ اپنے ہی جیسے کسی دیانتدار اور باصلاحیت کو چیئرمین بنایا جائے۔ یہ دوسرا مسئلہ ہو گیا کہ ابھی تک یہ دونوں شرائط پر پوری طرح پورا اترنے والا کوئی نہیں ملا۔ حیرت ہے‘ جاوید اقبال صاحب کی طرف کپتان کا دھیان ہی نہیں گیا حالانکہ ان کی ایمانداری اور باصلاحیتی پر تحریک انصاف میں بڑی حد تک’’اجماعِ امہ‘‘ ہے چند ہفتے پہلے دی جانے والی اکسیر صفت’’ویڈیو‘‘ ڈوز کے بعد تو ان کی ایماندرانہ اور غیر جانبدارانہ صلاحیتیں اور بھی پالش ہو گئی ہیں۔ چلئے وہ نہ سہی ۔ فیاض الحسن یا عامر لیاقت میں سے کسی کا انتخاب کر لیں۔ ٭٭٭٭٭ یہ خیال البتہ رکھنا پڑے گا کہ پناما جے آئی ٹی والا ’’ری پلے‘‘ نہ ہو جنگ عظیم دوئم کے بعد جو نذرمبرگ کمشن بنا تھا ‘ پانامہ جے آئی ٹی وسائل اور اختیارات کے لحاظ سے اس سے زیادہ نہیں تو کم عظیم الشان بھی نہیں تھا۔ دس صندوق اس نے تیار کرائے اورکسی بھی صندوق سے کچھ نہ نکلا۔ دامن مراد اقامے سے بھرا دو مقدمات میں ’’ملزم‘‘ کو سزا بھی ہوئی لیکن کسی متعین الزام کے ثابت ہونے پر نہیں بلکہ یہ معلوم ہونے پر اثاثے زیادہ ہیں آمدنی کم جبھی نواز یہ کہتے ہیں کہ ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت کر کے دکھائو۔ ٭٭٭٭٭ کمشن سے یاد آیا ‘ دیانتدار، باکردار، باصلاحیت جاوید اقبال دو کمشنوں کی پہلے بھی سربراہی فرما چکے ہیں۔ ایک لاپتہ کمشن جو خود ہی لاپتہ ہو گیا اور دوسرا ایبٹ آباد حملہ کمشن۔ ان کے نتائج کی برآمدگی کا ہنوز انتظار ہے اور آنے والے چند عشروں تک یہ انتظار جاری رہے گا۔ انشاء اللہ ٭٭٭٭٭ ایک اور مشہور زمانہ کمشن حمود الرحمن کے نام سے بنا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروںکا تعین کرنے کے لئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ کمیشن نے اپنا کام ذمہ داری اور دیانتداری سے (سچ مچ کے معنوں میں) انجام دیا اور ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ بھٹو صاحب کو تھما دی۔ بھٹو صاحب نے رپورٹ پڑھی بہادر آدمی تو تھے لیکن سمجھدار بھی تھے چنانچہ سمجھداری والے خانے میں چھپا کر رکھ دی۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے مہم چلائی کہ رپورٹ عام کی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ کمشن نے بھٹو کو ملزم قرار دیا ہے اس لئے انہوں نے رپورٹ چھپا لی۔ بھٹو صاحب کا کمال ضبط تھا کہ پوری مہم خاموشی سے سہی۔ ایک بار بھی اشارہ نہیں دیا کہ رپورٹ میں کیا لکھا ہے۔ بس یہی کہا گیا کہ قومی مفاد میں نہیں۔ 1977ء میں قومی مفاد نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے پھر شور مچایا کہ رپورٹ عام کی جائے۔ ضیاء الحق کی حکومت نے بھی کچھ اطلاعات لیک کر دیں۔ اس کے بعد سے (دائیں بازو کی جماعتوں پر چپ کی ایسی مہر لگی کہ آج تک نہیں ٹوٹی۔ رپورٹ سرکاری طور پر عام نہیں ہوئی لیکن غیر سرکاری طور پر سب کو پتہ ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ باغ بھی جانے ہے اور گل بھی۔ دائیں بازو کی خواہش تھی کہ رپورٹ میں سے کچھ ایسا نکلے کہ بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا جائے۔ ضیاء الحق نے ان کی خواہش پوری کر دی۔ حمود کمشن سے کچھ نہ نکلا قصوری کمشن سے نکال لیا گیا۔ ٭٭٭٭٭ مرحوم عباس اطہر یاد آئے جنہوں نے بھٹو صاحب کے ایک خطاب کی سرخی ادھر ہم ادھر تم لگائی تھی۔ یہ بھٹو کے الفاظ نہیں تھے لیکن مفہوم یہی تھا اور یہ پاکستان کو بچانے کی دراصل آخری کوشش تھی۔ اس بات کی تجویز کہ پاکستان کی فیڈریشن کنفیڈریشن میں بدل دی جائے۔ مجیب وہاں حکومت کریں‘ بھٹو یہاں اور یوں پاکستان مملکت کے طور پر قائم رہے۔ لیکن اصحاب نظارت کو منظور نہ ہوا۔