زمانے کا دوسرا نام، تغیر ہے! بقول یونانی فلسفی کے، اس کی مثال دریا کے پانی کی سی ہے، جو ہر لحظہ نئی شکل اختیار کرتا ہے۔ وقت کا سَیل، زمانے کا تغیر، تبدیلی کی رَو، اور آدمی دَم بخود! ایسے میں باگ ڈور، اکثر ایسے لیڈروں کے ہاتھ میں ہے جو اپنا نقش جمانے کی فکر میں ہیں۔ ع تغیر ایسا کہ گْم تعین، تعین ایسا کہ اپنی ہی دْھن بھارت سے شروع کیجیے، جہاں نریندر مودی جیسا انتہا پسند، ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ دوسری مرتبہ وزیر ِاعظم بن جائے۔ کبھی "گْجرات کے قاتل" کا امریکا میں داخلہ بند تھا۔ پھِر اس کی یہ عزت افزائی بھی ہوئی کہ امریکن کانگرس میں اس سے خطاب کرایا گیا۔ چینی صدر شی جن پنگ، جن کی سوجھ بوجھ کی دھوم مچی ہوئی ہے، پچھلے چھے سال سے اس عہدے پر ہیں اور ممکن ہے کہ طویل مدت تک رہیں۔ ملائیشی وزیر ِاعظم مہاتیر محمد، بانوے ترانوے سال کی عْمر میں، اپنی قوم کی خاطر، ایک بار پھر میدان میں ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ ع اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے! تْرک وزیر ِاعظم طیب اردوان نے "یورپ کے مرد ِبیمار" کی بیماری ایسی چھْڑائی کہ اب، یہ مرد ِمیدان ہو کر، ہزار مَن کا ہو چْکا ہے! سولہ سال سے یہ تْرکی کے مدار المہام ہیں۔ روس کے صدر ولادیمر پْوتن پچھلے بیس سال سے، کبھی وزیر ِاعظم اور کبھی صدر بَن کر، جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ امریکی پابندیوں کے باوجود، ہر محاذ پر، یہ امریکہ کے مقابل کھڑے ہو رہے ہیں۔ یوکرین سے پْرانا روسی علاقہ کرائیمیا، انہوں نے اس طرح چھینا کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔ خود امریکن صدر کے بارے میں کیا کہا جائے؟ ان کی "طلاقت ِلسانی"؟ الامان و الحفیظ! ع تیری زباں کے آگے، نہ دہقاں کا ہَل چلے ہر دو چار ہفتے بعد، انہیں حرارہ آتا ہے اور کسی نہ کسی محکمے کی شامت آ جاتی ہے۔ ان دنوں سیکرٹ سروس کی باری آئی ہوئی ہے۔ غرض ٹرمپ ع چلے دو قدم اور بجلی گِرا دی کی واقعاتی تصویر ہیں۔ اسرائیل میں انتخابات کے نتائج سامنے آیا ہی چاہتے ہیں۔ وزیر ِاعظم بینجامن نتن یاہو، مسلسل پانچویں دفعہ وزیر ِاعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے دور میں، وہ کام ہوئے ہیں، جن کی پچھلے وزراء اعظم صرف تمنا کر سکتے تھے۔ مثلا یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو، امریکا سے تسلیم کرانا وغیرہ۔ جن ملکوں کا ذکر گزرا ہے، ان میں سے اکثر پر، جمہوریت کی صرف تہمت لگ سکتی ہے! ان حالات میں، پاکستان کو بھی ایک عہد ساز وزیر ِاعظم میسر آیا ہے۔ عمران خان کے قریبی ساتھی، ان کی نیک نیتی اور ایمان داری کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن ان خوبیوں کے ثمرات، عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ شاعر کہتا ہے راستی موجب ِرضائی ِخدا ست کَس نہ دیدم کہ گم شد از رہ ِراست یعنی، ایمان داری خدا کی رضا کا ذریعہ ہے۔ جس نے یہ راہ پکڑی، پھِر گْمراہ نہیں ہوا۔ ایمان داری کی پہلی شرط، نیت ہے، اور دوسری اس کا عملی اظہار۔ صرف پہلی شرط پوری کرنے کی مثال ایسی ہے کہ آدمی نماز کی فقط نیت پر اکتفا کر لے! کتنی ہی وزارتیں، صرف وقت گزاری کر رہی ہیں۔ غضب خدا کا! اکیس کروڑ لوگوں کا معاشی مستقبل، ایک لاابالی وزیر کے ہاتھ میں ہو۔ اتنی بھاری ذمہ داری پر، وزیر ِخزانہ کو آخر نیند کیسے آتی ہے؟ وزیر ِاعظم کو، اب فیصلے کرنے ہیں۔ یہ نہ ہوا تو مورخ لکھے گا کہ اس دور میں پاکستان میں ایک ایسی حکومت تھی، جو کہ نہیں تھی! ٭٭٭٭٭ میر ِمحفل میر کی نازک مزاجی قیامت تھی۔ اس کا اعتراف یا اعلان، وہ خود بھی کر گئے ہیں۔ ایسے شاعر کا معاملہ، بعد از مرگ بھی ع آہستہ برگ ِگْل بفشان بر مزار ِما کا متقاضی ہے! لیکن شاعروں کے استاذالاساتذہ اور اردو کے اس محسن پر دْہرا ظلم ہوا ہے۔ کلام ِمیر کی شرح تو کْجا، عمدہ انتخاب تک نہیں ہو سکا۔ پھِر میر کے اکثر شعر، یا تو صحیح طرح نقل نہیں ہوتے، یا ان کا محل نہیں سمجھا گیا۔ اثر لکھنوی نے فراق کی سخن فہمی کا خوب مذاق اڑایا کہ اتنا پست اور ہر اعتبار سے گھٹیا شعر میر کے نام سے جَڑ دیا! میر کا یہ مصرع ہزاروں مرتبہ نقل ہوا ہو گا لیکن زیادہ تر بے محل ع افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی میر یہ نہیں کہہ رہے کہ افسوس تم کو میر سے صحبت "باقی" نہیں رہی۔ بلکہ کہتے ہیں کہ افسوس تم کو میر سے "کبھی" صحبت نہیں رہی۔ یہ شعر دیکھیے۔ سرھانے میر کے "آہستہ" بولو ابھی ٹْک روتے روتے سو گیا ہے یہ شعر سْن کر حیرت ہو گئی تھی کہ میر کیا چھوٹے سے بچے ہیں کہ "آہستہ بولو" کی تلقین کی جا رہی ہے؟ اور یہ بھی کہ "آہستہ بولو" میں بولنے کی، گویا تلقین بھی ہے! بعد میں "سرھانے میر کے کوئی نہ بولو" نظر پڑا تو جان میں جان آئی۔ فارسی کا مشہور شاعر خاقانی کہتا ہے۔ ہمسایہ شنید، نالہ ام، گفت خاقانی را، دگر شب آمد یعنی، میرے نالے کی آواز ہمساے تک پہنچی تو اس نے کہا کہ لو! خاقانی کی رات پھر شروع ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں میر کا شعر ہزار گنا اونچا ہے۔ خاقانی کے شعر میں کئی چیزیں محل ِنظر ہیں۔ مثلا خاقانی کا صرف رات میں گریہ کرنا وغیرہ! میر کے شعر میں، گریہ کرنے کے بجائے، گریہ نہ کرنا موجب ِحیرت ہوا ہے۔ یہ بھی کہ لوگ اس کے سرھانے جمع تو ہیں، مگر یقین نہیں کہ بظاہر سویا ہوا، زندہ بھی ہے یا دنیا سے گزر گیا؟ "سو گیا ہے، مت جگائو" کہہ کر، دراصل یہ پیش بندی کی گئی ہے کہ دوبارہ وہی قیامت خیز گریہ اور دلدوز آہیں نہ سننا پڑیں!