پاکستان کے ازلی دشمن نے وطن عزیز کیخلاف جارحیت کی کوشش کی، ہم نے اس کے دو جنگی طیارے مار گرائے اور اسے اپنی حمیت اور طاقت سے آشنائی دیدی،اسے پاکستان کی حمیت اور قوت سے آشنائی بھی دیدی گئی،پاکستانی علاقے میں گرنے والے ایک پائلٹ کو حراست میں لیا گیا مگر اسے جنگی قیدی بنانے کی بجائے اپنا مہمان بنا لیا، اس کی بہت خاطر تواضع کی اور اگلی ہی صبح اسے بھارت واپس بھجوا دیا،دنیا بھر کو پیغام مل گیا کہ پاکستان ایک صلح جو اور امن پسند ملک ہے اور بھارت سے خوامخواہ جنگ نہیں دوستی چاہتا ہے، وزیر اعظم اور مسلح افواج کے سپہ سالار کے اس متفقہ فیصلے کو خود پاکستان کے اندر بھی سراہا گیااور تمام اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے بھی، اگرچہ جنگ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں، دشمن اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کیلئے کسی بھی طرف سے وار کر سکتا ہے مگر پاکستان کے عوام جان چکے ہیں کہ وہ اپنی بہادر فوج کے ہمہ وقت الرٹ ہونے کے باعث پوری طرح محفوظ ہیں۔ میں نے تمہید وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی متوجہ نواز شریف کی طرف دلوانے کی کوشش کی ہے جو اس مملکت خداداد کے تین بار وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں اور اس وقت جیل میں بند ہیں، ان کا پورا خاندان اور انکی پارٹی دہائیاں دے رہے ہیں کہ وہ دل کے مریض ہیں، انکی صاحبزادی مریم نواز دعوی کر رہی ہیں کہ انہیں جیل کے اندر دس دنوں میں چار بار انجائنا کا اٹیک ہو چکا ہے، اگرچہ حکومت کے پاس ان کی طبی رپورٹس تسلی بخش ہیں، ن لیگ کی دہائیوں کے بعد ن لیگ کی طرف سے ہی بتایا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرانے کے سارے انتظامات کر لئے گئے تھے، مگر نواز شریف اب جیل سے اسپتال جانے کو تیار نہیں ہو رہے، اس حوالے سے کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ، میں پاکستان کی سات جیلوں میں سیاسی قیدی کے طور پر رہ چکا ہوں کہ جیل میں کسی بھی قیدی کی مرضی نہیں چلتی، یہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ حکومت نواز شریف کو اسپتال منتقل کرنا چاہے اور نواز شریف اکڑ جائیں، میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ حکومت اگر انہیں جیل سے اسپتال شفٹ کرنا چاہتی ہے تو نواز شریف کے ہاتھ میں نہ کلاشنکوف ہے نہ انہوں نے خودکش جیکٹ پہن رکھی ہے، انہیں اسپتال پہنچا کر عمران خان ایک کریڈٹ اور حاصل کر سکتے ہیں ، ایک دوسری بات یہ ہے کہ مسند اقتدار سے اتر جانے بعد اور الیکشن میں ن لیگ کے ہار جانے کے بعد بے شک نواز شریف کا غصہ تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے، باپ تو باپ ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ نے بھی مسلسل جتنے زیادہ غصے کا مظاہرہ کیا اس سے تو ایک لاکھ لوگ بلڈ پریشر کے مریض بن گئے ہونگے، ان سب مزاحمتی حربوں کے بعد پانچ ماہ پہلے نواز شریف کو جیل میں اور مریم نواز کو گھر میں ایسی چپ لگی کہ اس چپ پر کہانیاں لکھی جانے لگیں، میں اس خاموشی پر کوئی افسانہ تو نہیں لکھ سکتا صرف یہ عرض کروں گا کہ خاموشی بذات خود ایک سمجھوتے کا نام ہوتی ہے ، میرے اس فلسفے کا جواب آپ یہ دے سکتے ہیں کہ۔۔ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔۔۔ اسی لئے تو کہہ رہا ہوں نواز شریف مانیں نہ مانیں ان کا زبردستی علاج کرا دینا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ جناب فیاض الحسن چوہان کا، جنہیں کوئی تانے بانے جوڑ کر پنجاب کا وزیر اطلاعات اور ثقافت بنوا دیا گیا تھا، مجھے سو فیصد یقین ہے کہ عمران خان ذاتی طور موصوف کو جانتے بھی نہ ہونگے، انہوں نے وزیر بننے کے بعد پہلا وار شو بز سے تعلق رکھنے والی خواتین پر کیا تھا، حضرت جی اس تقریب میں وزیر سے اچانک مبلغ بن گئے اور فرمایا کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ فلاں فلاں ایکٹرسوں کو حج کراکے گھروں میں بٹھا دیں،،، میں نے چینلز پر ان کے اس فرمان کو تفصیل سے بار بار سنا، ایک تو انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ جن اداکاراؤں کے نام لے رہے ہیں وہ پہلے ہی فریضہ حج ادا کر چکی ہیں۔ ایک ایسے آدمی کو فنون لطیفہ کے ادارے سونپ دیے جائیں، جسے اپنی زبان پر ہی قابو نہ ہو، ایک ایسے آدمی کو جس کو اپنے سماج اور اپنے لوگوں کبھی کوئی واسطہ ہی نہ رہا ہو۔۔۔ موصوف نے گنتی کے چند دوست صحافیوں کو اپنے پہلو میں بٹھا کر ایک سے زیادہ بار صحافیوں کے ساتھ بھی بد تمیزی کی، جس آدمی کا تمیز سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں وہ لوگوں کو تمیز سکھانے کے مشن پر چل پڑا، ،،جناب وزیر اعظم صاحب! آپ کی حکومتی صفوں میں ان جیسے اور بھی فرشتہ صفت ہو سکتے ہیں جو آپ کو کسی بھی وقت مزید شرمندگیوں۔۔میں مبتلا کر سکتے ہیں۔۔۔ ذرا بچ کے،احتیاط سے۔ ٭٭٭٭٭ انیس سو بہتر میں، فلموں کی کہانیاں لکھنے کا سودا دماغ میںسوار تھا ، ایک دن میں عنایت حسین بھٹی کے گھر ان کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک انہوں نے انکشاف کیا ’’ میں ایک سیاسی پارٹی بنانا چاہتا ہوں‘‘ دلیل یہ دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بائیں بازو کی انتہاپسند پارٹی ہے۔۔ اور دوسری جانب جماعت اسلامی دائیں بازو کی انتہا پسند’’ میں ایک ایسی پارٹی بناؤں گا جو اعتدال پسند ہو‘‘عنایت حسین بھٹی نے مجھ سے سوال کیا ’’ کیا آپ میری ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مودودی سے ملاقات کرا سکتے ہیں‘‘‘میں نے جواب دیا’’ بھٹو تک تو میری پہنچ نہیں ،مولانا سے ملوا سکتا ہوں‘‘ میں اگلے ہی دن مولانا کے پاس پہنچ گیا،، ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا’’’ مولانا، ایک آرٹسٹ ہیں عنایت حسین بھٹی، بہت اچھے اور مشہورگلوکار بھی ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔ ’’رات کو لائیے گا‘‘ ’’رات کو کیوں مولانا‘‘ ’’دن میں لائے تو لوگ کہیں گے، اب مولانا سے ملنے فلم والے بھی آتے ہیں‘‘میں نے بھٹی صاحب کو مولانا کے ریمارکس تو نہیں پہنچائے، رات کے وقت انکی مولانا سے ملاقات ضرور کرادی ، اور اس ملاقات میں کیا ہوا یہ مجھے معلوم نہیں ، کیونکہ میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا۔