حکومت نے پیٹرول و ڈیزل کے نرخوں میں 15روپے کمی کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں مسلسل کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ کرونا وائرس کے منفی اثرات سے معیشت کو محفوظ رکھنے کے لئے وزیر اعظم نے خصوصی پیکیج کا اعلان بھی کیا ہے۔ امدادی پیکیج میں صنعتوں‘ زراعت اور لاک ڈائون کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ہر ایک کے لئے ایک سو ارب مختص کئے گئے ہیں۔ مزدور طبقے کے لئے 200ارب‘ طبی عملے اور یوٹیلیٹی سٹور کے لئے پچاس پچاس اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لئے 25ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے برآمد کنندگان کے مسائل کو پیش نظر رکھ کر ان کے لئے 100ارب روپے کا ٹیکس ریفنڈ رکھا گیا ہے جبکہ بجلی‘ گیس کے بلز 3ماہ کی اقساط میں ادا کئے جا سکیں گے۔ پوری دنیا میں کرونا وائرس کے منفی اثرات دو طرح سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ وائرس علاج معالجے کی ہزاروں برس کی تحقیق کی گرفت میں تاحال نہیں آ سکا۔ لاکھوں لوگ متاثر ہو چکے اور ہزاروں موت کا لقمہ بن گئے۔ کسی دور دراز‘ پسماندہ اور افلاس زدہ ریاست تک محدود نہیں کرونا190ممالک تک پہنچ چکا ہے۔ میڈیکل سائنس میں دنیا کا لیڈر امریکہ اس قدر مجبور ہے کہ وہاں 400افراد کرونا کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھے اور ہزاروں مریض ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ اٹلی کے لوگ جو صحت و صفائی کے معاملات میں یورپ کی دیگر اقوام سے آگے ہیں وہاں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد سات ہزار کو چھو چکی ہے۔ ہر چیز پر قدرت اور ہر امر پر کنٹرول کا دعویدار انسان بے بسی‘ لاچارگی اور کمزوری کے احساس سے شرمندہ ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع اور علاج معالجے کے مسائل کے علاوہ کرونا نے بلا امتیاز رنگ‘ نسل‘ عقیدہ و جغرافیہ سب کے لئے معاشی خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ معاشی بحران میں دیوالیہ ہونا‘ قرضوں کا ڈوب جانا اور منافع بخش معیشتوں کا خسارے میں جانا شامل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت پاکستان جیسے ترقی پذیر اور قرضوں میں جکڑے ممالک کی مشکلات دوچند ہیں۔ کرونا کی وبا نے انسانوں کو تخلیہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کی ہئیت اجتماعی میل جول کی شکل میں پروان چڑھی ہے۔ جن ملکوں کے ہاں جدید پیداواری و آئی ٹی ٹیکنالوجی ہے انہوں نے ایسا انتظام کر لیا ہے کہ کارکن گھر بیٹھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کر سکیں۔ پاکستان کے لئے تکلیف اس لئے زیادہ ہے کہ یہاں نہ تو جدید طبی سہولیات وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور نہ معیشت کو اس ہنگامی صدمے سے بچانے کا انتظام۔ وزیر اعظم عمران خان چند ماہ قبل ملک میں مہنگائی بڑھنے پر فکر مندی کا اظہار کر رہے تھے۔ انتظامیہ کے سربراہ کے طور پر ظاہر ہے ان کی نری فکر مندی کافی نہ تھی عوام ان سے ایسے اقدامات کی توقع کرتے تھے جو ان کی زندگی میں آسانی لائیں۔ وزیر اعظم نے مہنگائی کے ستائے عوام کے لئے اربوں روپے کا پیکیج جاری کیا۔ وزیر اعظم کی یہی درد مندی آٹا اور گندم کے مصنوعی بحران کے موقع پر دیکھنے کو ملی۔ دو دن میں سرکاری اقدامات کا یہ فائدہ ہوا کہ ذخیرہ اندوز اور گراں فروشوں کو پسپا ہونا پڑا۔ اب قوم کو کرونا وائرس کا سامنا ہے۔ ہوٹل‘ ریسٹورنٹ‘ شادی ہال‘ جم اور کلب‘ شاپنگ مال اور عام دکانیں‘ تفریح گاہیں‘ سینما اور پارک بند ہیں‘ ٹرینیں اور بسیں بند کر دی گئی ہیں۔ ان تمام مقامات پر لاکھوں لوگ کام کرتے تھے۔ کاروبار بند ہونے سے یہ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور جن مزدوری اڈوں پر کھڑے ہو کر کام ملنے کا انتظار کرتے تھے وہ جگہیں ویران پڑی ہیں۔ یہ سب انتظامات پاکستانی شہریوں کو کرونا سے بچانے اور گھروں میں رکھنے کے لئے ضروری تھے لیکن ایک مصیبت کا مقابلہ کرتے کرتے ہم معاشی مشکلات کو بھی دعوت دے بیٹھے ہیں۔وزیر اعظم کی طرف سے ایک ہزار ارب روپے کا پیکیج پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا امدادی پیکیج ہے۔ جن شعبوں کو نقصان کا سامنا ہے ان کا خسارہ کم ہونے اور معیشت کو سہارا دینے کے لئے یہ پیکیج نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں کہ ان کی وجہ سے اشیا کی پیداواری لاگت کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں پاکستان کے ٹیکسٹائل و گارمنٹس کے شعبے کو معمول سے زیادہ برآمدی آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ صنعت کاروں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی کھپت میں کمی کی وجہ سے جو قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اس کا فائدہ پاکستانی صارفین کو بھی دیا جائے۔ پاکستانی حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ معاشی نمو کم ہونے کی وجہ سے ٹیکس اہداف کا حصول ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات میں تیل کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کسی غیبی مدد سے کم نہیں۔چند ہفتے قبل حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7روپے فی لٹر کمی کی تھی۔ اب 15روپے فی لٹر کمی کا حکم 3ماہ تک نافذ رہنے کی وجہ سے بحرانی دور میں ٹرانسپورٹ کی مد میں اٹھنے والے اخراجات میں واضح کمی اشیا کی پیداواری لاگت کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا ایک فائدہ بجلی اور گیس کی سستی دستیابی کی صورت میں مل سکتا ہے جس سے آئندہ موسم گرما میں لوڈشیڈنگ میں کمی کا امکان ہو گا‘ وزیر اعظم کے امدادی پیکیج کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے کم از کم 200ارب روپے مختص کر کے نظام کو جدید بنانے پر توجہ دی جاتی۔ بہرحال مشکل مرحلے پر یہ پیکیج غریب افراد اور صنعت کاروں کے لئے یکساں طور پر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔