پتایا ،سیام یعنی تھائی لینڈ (Thailand)کے ساحل پر مغرب کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں تو دور سمندر میں کچھ زمردی جزیرے دکھائی دیتے ہیں۔ صاف موسم میں بہت صاف۔دھند بھری فضا میں محض ہیولے۔مقامی زبان میں کوہ لارن(Koh Larn) اور سیاحوں کی زبان میں کورل آئی لینڈز(Coral islands)کہلانے والے یہ سرسبز جزیرے خوب صورت ریتلے ساحلوں اور ڈوبتے چڑھتے سورج میں سمندر کے رنگوں کے لیے مشہور ہیں ۔سفید بلکہ کچھ کچھ نقرئی ریت یہاں سے وہاں تک بچھی ہوئی اور جہاں یہ ریت ختم ہو وہاں سے ہریالی شروع۔ ’’پتایا‘‘ سیام کے دارالحکومت بنکاک (Bangkok) کے ٹریفک جام اور بھیڑ بھاڑ سے 150کلومیٹر دور ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ساحلی شہر ہے۔لیکن سچ یہ ہے کہ پتایا جسے سیامی’ ’ پتیہ‘ ‘ کہتے ہیں ان لوگوں کی جنت ہوسکتا ہے جو راتوں کو رنگا رنگ اور قسم در قسم سورجوں سے روشن کرنے کی تلاش میں ہوںلیکن پتیہ ان لوگوں کے لیے کوئی خاص دل کشی نہیں رکھتا جو قدرتی آفتاب و ماہتاب کے طلوع و غروب کی تلاش میں جہاں گردی کرتے پھرتے ہوں۔ جہاں گرد پتایا سے موٹر بوٹ پر سوار ہوا تو چپٹے خد وخال والی قوم خال خال تھی۔جو تھی وہ کھڑے نقش و نگار والی گوری نسل کے سیاحوں کی خدمت میں مصروف اور منہمک۔ملاح اور ان کے مددگار۔سیامی لوگ نسبتاً چھوٹے قد کے ،کھلی سانولی رنگت والے اور عام طور پر بے ضرر لوگ ہیں۔اور دنیا بھر میں جہاں جہاں پیسے والی مخلوق سیر کرنے آتی ہو وہاں چالاکی، کاروباری خوش اخلاقی اور خوشامدکے ساتھ ایسی چالاکی سے گوندھی جاتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہاں ایک کی حد ختم ہوئی اور دوسری شروع ہوگئی۔موٹر بوٹ روسی سیاحوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ۔روس میں چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں اور یہ سیاح انفرادی اور ٹولیوں کی شکل میں گرم ساحلوں کی طرف اس طرح پرواز کررہے تھے جیسے سائبیریا کے پرندے گرم پانیوں کا رخ کرتے ہیں۔سیامی زبان کے گنے چنے ،رٹے رٹائے لفظوں اور کام چلاؤ جملوں سے سیام فتح کرنے والے روسی غالب اکثریت میں ہیں۔انگریزی زبان جاننے والا روسی کوئی کوئی ہے۔مردوں کی سرخ رنگت جس میںذرا جھجھک اور تکلف کے ساتھ سفید رنگ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ چہرے کم و بیش سرخ سفید تہذیب کے نمائندہ۔دور سے خوب صورت۔قریب سے دیکھنے پر مہاسوں، کیلوں اور تلوں سے بھرے ہوئے۔ لڑکیاں اور عورتیں اکثر و بیشتر خوب صورت۔یہی چہرے ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کو پہنچتے بالکل بدل جاتے ہیں۔ خوب صورت بڑھاپا تو ہمارے یہاں ان بوڑھوں کا دیکھنے والا ہوتا ہے جن کے چہرے پر طمانیت اور اندر کا سکون نور بن کے چہرہ سازی کرتا ہے۔ہم اپنے بوڑھوں کی خوب صورتی بہت کم دیکھتے ہیں حالانکہ یہ جوان حسن کو ماند کردینے والی خوب صورتی ہے۔ موٹر بوٹ کوہ لارن کے ساحل پر لگی۔سیاحوں نے پہلی بار اس جزیرے پر پاؤں دھرے۔سامنے پہاڑ، سمندر اور ہریالی تین قریبی سہیلیوں کی طرح منتظر تھیں۔قدرت کا کیا بھید ہے کہ پہاڑ ،سبزہ اور پانی جہاں کہیں یک جا ہوتے ہیں کھلے دل والوں کے لیے اپنا دل کھول دیتے ہیں۔آنکھ کو سیراب کردینا ان تین سہیلیوں پر ختم ہے ۔ کوہ لارن ہریالی بھری پہاڑی ڈھلوانوں کا نام ہے جو اترتے اترتے سفید ریت سے ہاتھ ملا کر رخصت ہوتی ہیں اور یہ سفید ریت سو دو سو قدم سمندر کی طرف چل کر فیروزی ،سبز سمندر سے ہم آغوش ہوجاتی ہے۔جزیرے کے مختلف رخوں پر چھ مختلف ساحل ہیں۔ہر ساحل کا الگ نام اور جدا جدا سمندری رنگ۔ ’’ٹوائن بیچ‘‘ Tawaen Beach)) سب سے بڑی اور سب سے پرہجوم۔’ ’ سمائی بیچ ‘ ‘ (Samae Beach) بعض لوگوں کے خیال میں بہترین۔ ’’نوال بیچ‘‘ (Nual Beach) جزیرے کے آخری سرے پر اور دور ہونے کی وجہ سے پرسکون۔ ’ ’ ٹائن بیچ ‘ ‘ Tien Beach) ) مناظر کے اعتبار سے عمدہ لیکن کم سہولیات والی ’’ ٹونگ لینگ ‘‘(Tong Lang) اور ’ ’ تائیائے بیچ‘‘ (Tayaiy Beach) نسبتاًکم درجہ سمجھی جانے والی۔ لیکن ٹھنڈی سمندری ہوا کے رخ پر واقع’ ’ سمائی بیچ ‘ ‘سے ڈوبتے سورج کا منظر اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ عرفان صدیقی مرحوم کے شعر کی طرح: ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھیے گا اک ذرا منظر غرقابئی جاں دیکھیے گا اور اس دنیائے مکافات کے حوالے سے اسی غزل کا یہ شعر بھی کتنا سچا ہے: یہی دنیا ہے تو اس تیغِ مکافات کی دھار ایک دن گردنِ خنجر پہ رواں دیکھیے گا ناریل کے درختوں تلے بدلتے آسمان کی رنگا رنگی دیکھی اور سمندر پر روشنی کی چھُوٹ پڑتے اور زاویے تبدیل ہوتے دیکھا تو ایسا لگا کہ جیسے یہ کوئی الگ دنیا ہے اور اس کے زمین آسمان بھی مختلف ہیں ۔سمندر، آسمان، روشنی ،ریت، سبزہ اور اکیلا انسان۔جیسے یہ زمین ابھی ابھی تخلیق ہوئی ہو اور یہ اس کا پہلا دن ہو۔ دل میں امنگ ہو اور پاؤں میں طاقت تو اس جزیرے کی سیر کو نکلیے۔بتدریج بلند ہوتی پہاڑی کی چوٹی تک پہنچے اور دور تک ہرے فیروزی اور نیلے سمندر کا نظارہ کیجیے۔یہ منظر آپ کی ساری تھکن اتار کر ایک طرف رکھ دے گا۔ وقت کی ٹک ٹک یہاں بے معنی ہے اور گھڑی کو ساتھ لانا تضییع اوقات۔ رات کو ستاروں بھرا آسمان اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ اس ہیروں بھرے جگمگ کرتے سیاہ مخملی کپڑے کو ہاتھ بڑھا کر چھو لو۔دن بھر ناریل کے درختوں میں سرسراتی سمندری ہوا شام ہوتے ہی خنک نمی لے آتی ہے ۔بھیگے ہوئے دل کے ساتھ جسم بھیگتا اچھا لگتا ہے۔ہر خوب صورتی میں ایک اداسی ہوتی ہے یا شاید یہ اداسی اندر ہوتی ہے جو منظر دیکھ کر نظارہ کرنے باہر نکل آتی ہے ۔ سیام کا نام سب سے پہلے میں نے بچپن کی کسی کہانی میں سیامی بلّی کے حوالے سے پڑھا تھا۔ایک زمانے بعد سیامی بلّی دیکھی تو معلوم ہوا کہ بیان کرنے والے نے اس گھنے ریشم والی معصوم سی دوست کو ٹھیک بیان کیا تھا۔لیکن تھائی لینڈ کے پھل بھی الگ اور منفرد ہیں ۔خاص طور پر مینگوزٹین mangosteen))۔ سنگھاڑے جیسے رنگ کے بے کشش اور سخت چھلکے کے اندر ایسا رس بھرا نرم خوشبودار گودا ہوگا یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔لیچی کی طرح ذائقے میں مہک چھوڑ جانے والا مینگوزٹین اپنا اسیر کرلینے والا پھل ہے۔ کاش یہ پھل پاکستان میں بھی اگایا جاسکتا۔ویسے یہ کاش کا لفظ کا تو بھات بس(Bhat bus)اور ٹک ٹک (Tuk tuk) کو دیکھ کر بھی یاد آتا ہے ۔ہمارے یہاں سواری تانگے اور چنگ چی کی طرح سستی اور عوامی سواری لیکن کہیں زیادہ آرام دہ ،محفوظ اور آسان۔ یہ عوامی سواریاں ہیں اورر ہمارے یہاں بھی کارآمد ہوسکتی ہیں کیوں کہ فی سواری پھیرے کا تصور اور عمل ہمارے یہاں پہلے سے موجود ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آج بیٹھے بٹھائے مجھے کوہ لارن اور وہ ہلکا سبز اور گہرا نیلا سمندر کیوں یاد آیا لیکن یہ چھوٹا سا جزیرہ مجھے ان تمام سرسبز جزیروں کی یاد دلاتا ہے جہاں میں کم از کم ایک بار جانا چاہتا ہوں لیکن اس زندگئی مختصر میں ممکن نہیں۔اور سچ یہ ہے کہ دنیا تو بہت بڑی چیز ہے اللہ کی بنائی ہوئی کسی ایک خوب صورت چیز کو جی بھر کے دیکھنا اور اس کا حق ادا کرنا بھی ممکن نہیں۔کبھی یہ شعر اسی کیفیت میں کہا تھا : اس اک گلاب کو جی بھر کے دیکھنا ہے مجھے یہ کام زندگئی مختصر میں کیسے ہو ؟