وہ تخیل کی طرح ہاتھ کہاں آتا ہے نارسائی جسے نایاب بنا دیتی ہے تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے بات یوں ہے کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ایک اور انداز میں دیکھیں کہ سوچ تو شاید اس کے بس میں ہو مگر اس عمل میں سوچ اسے خیال کے حوالے کر دیتی ہے اور پھر خیال آوارہ ہوا کی طرح ہوتا ہے جو ہمیں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح یا خشک پتے کی طرح اڑائے پھرتا ہے۔ یہ خیال رنگ و خوشبو کو بھی چھوتا ہے پھر غیب سے اس کی پذیرائی ہوتی ہے کچھ روز تک رنگ اس میں اترتے ہیں۔ گویا یہ ایک پراسرار عمل ہے خواب اور خیال ہم آہنگ ہو جائیں تو شاعری جنم لیتی ہے۔ شاعری خبر نہیں انشاء ہے۔ اڑتے ہوئے بادل شکلیں تبدیل کرتے ہوئے بے تاب دل کی طرح بھری ہوئی محبت بھری آنکھوں کی طرح برستے ہوئے اور مردہ زمینوں کی زندگی بخشتے ہوئے فرحت و انبساط کے استعارے بنتے ہوئے مناظر۔ کیا کریں شعر کی تفسیر تو فطرت میں کھلتی ہے: اختتام سفر کھلا مجھ پر دست دشت تھی سراب کے ساتھ یہ ایک شاعر کی دنیا ہے کہ جہاں وہ فطرت کی پہنائیوں میں گم ہو جانا چاہتا ہے آپ اسے آئیڈیل کی تلاش کہیں یا فرار کہیں کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ چیر آسودگی ضرور بخشتی ہے۔ ثمینہ راجہ نے کہا تھا: شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی زندہ رہنے کے لئے کوئی بہانہ ہی سہی شاعر اپنے انوکھے اور اچھوتے تجربات و مشاہدات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر بھی کرتے ہیں اس لئے کہ انہیں اپنے جیسے ہی محرم راز ملتے ہیں۔ دل کی بات دل والے ہی سمجھتے ہیں اس میں کوئی قید نہیں شاعر ایک مزاج اور طرز زندگی کا نام ہے۔ میں کلام سنا رہا تھا تو ہوٹل کا ایک نوجوان بیرا پاس سے پانچ چھ مرتبہ گزرا اور اس نے میرا دھان حاصل کیا کہ وہ بہانے سے شاعری سن رہا تھا اور میں اس کی بدن بولی تک رسائی رکھتا تھا مجھے اس کا یہ عمل اور اشتیاق تمام سننے والے شاعروں سے زیادہ اچھا لگا۔ بعض اوقات کسی کے اندر ایک امیج اور صلاحیت موجود ہوتی ہے مگر وہ راہ نہیں پاتی۔ خیر بات کرتے ہیں مشاعرے کی اور محفل کی جو حسن بانو نے ادبی تنظیم انٹرنیشنل کے فورم پر رکھی ہوئی تھی ۔چنیدہ سے ادیب شاعر تھے جس کی صدارت فرما رہے تھے جدید لہجے صاحب اسلوب شاعر نذیر قیصر۔ ان کے شعروں میں اختصار و اعجاز ایسا ہوتا ہے کہ جان نکال لیتا ہے۔ ہم اگر آج خواب دیکھیں گے لوگ کل انقلاب دیکھیں گے اگر آپ غور کریں تو وہی خواب ذہن میں آتا ہے جو اقبال نے دیکھا اور قائد جس کی تعبیر بنے۔ یہی وہی خواب ہے جو زندگی بھر سونے نہیں دیتا۔ یہ وہی خواب ہے جو انقلاب کی اساس بنتا ہے۔ حقیقت بھی تو خواب ہی سے جنم لیتی ہے اور بدگمانی میں بھی اک گمان ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شعر ہی پوری کتاب کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ہم بیٹھے ایک دوسرے کو غزلیں سنا رہے تھے تو ایک شعر پر معروف شاعر لطیف ساحل فرمانے لگے کہ مندرجہ ذیل شعر پر کتاب لکھی جا سکتی ہے: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تجھ کو روبرو کر کے اس خوبصورت محفل میں حاجی عبدالستار اور ثناء اللہ شاہ تو چشتیاں سے تشریف لائے تھے۔بینا گوئندی امریکہ سے آئی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر سعدیہ بشیر‘ حنا رانا‘ راشد ممتاز لاہوری اور کئی دوسرے دوست۔ نہایت پر تاثیر شعر کہنے والی حمیدہ شاہین مہمان تھیں۔ مہمان خصوصی کا اعزاز مجھے بخشا گیا۔ بڑے عرصہ بعد اپنے شاگرد انور گوندل کو نعت پڑھتے ہوئے دیکھا اس نے تو سماں باندھ دیا۔ وہ صوفی کلام کے ساتھ دنیا کے کئی ملکوں میں بلایا جا چکا ہے۔ اس نے احمد ندیم قاسمی کی نعت سنائی تو مجھے وہ مشاعرہ یاد آ گیا جس میں قاسمی صاحب نے مدینہ سے واپسی پر پہلی مرتبہ یہ نعت سنائی تھی۔ سبحان اللہ: یہ کہیں خامئی ایماں ہی نہ ہو میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں اس کے بعد اس تنظیم کے بانی ثناء اللہ شاہ نے تنظیم کے اغراض مقاصد بیان کیے اور خاص طور پر مرحومہ رخسانہ نور کے حوالے سے اعلان کیا کہ ان کی شخصیت کے حوالے سے وہ ایک کتاب لکھنے جا رہے ہیں۔ رخسانہ نور ادبی تنظیم کی روح رواں تھیں اور اس پلیٹ فارم سے وہ سوشل کام بھی کرتی تھیں خاص طور پر ضرورت مند ادیبوں شاعروں کے علاوہ غریب اور بیوائوں کے لئے امداد کا بندوبست۔ یقینا وہ پہلی ہی خاتون نغمہ نگار تھیں‘ فلمی کہانی کار بھی‘ صحافت میں انہوں نے بہت نام کمایا۔ سید نور کو سچ مچ ایک کامیاب شخص انہوںنے بنایا۔ رخسانہ نور کی یادوں کے باعث محفل میں ایک غم کا رنگ پھیل گیا شفیق احمد نے بھی رخسانہ نور کے حوالے سے خوبصورت باتیں کیں اور اپنی خوبصورت غزل بھی سنائی: پندار محبت میں خسارا نہیں دیکھا جب چھوڑ دیا ہم نے دوبارہ نہیں دیکھا ایسی محافل روح کو تازگی بخشتی ہیں اور اندر کی گھٹن کم ہوتی ہے ۔ موجودہ عہد کی شاعری کے تیور پتہ چلتے ہیں ۔ بہتر ہو گا کہ باقی کالم میں چند اچھے شعروں کے لئے چھوڑ دوں اور اپنے قارئین کی سرشاری کا سامان فراہم کر دوں: آخرت بھی ہے اور دنیا بھی تیرے بدلے میں کیا کیا جائے (تجدید قیصر) یہ کہتی ہے بدن کی خاک تجھ کو زمیں تیری نہیں تو ہے زمیں کا (پروفیسر فرخ محمود) کیسے برہنہ پیڑ ثمر بار کر دیا یعنی میں بے نمو تھا نمودار کر دیا (شاہد رضا) زمانے آن بیٹھے ہیں مرے دل کی حویلی میں محبت مسئلہ بن جاتی ہے سادہ پہلی میں (سعدیہ بشیر) اپنی آنکھیں اپنا چہرہ بھول گئے اس کو دیکھا جانے کیا کیا بھول گیا (حرا رانا) میں نے تھاما ہے اسے نام علی ؑ کا لے کر میرے دشمن مری شمشیر نہیں ٹوٹے گی (انمول گوہر)