میرا یہ کالم وہ لوگ پڑھیں جنہیں شوگر ہے اور وہ جنہیں شوگر نہیں۔ اس کالم کو ہرگز نظرانداز نہ کریں اب دنیا میں دو طرح ہی کے لوگ ہو سکتے ہیں ایک جنہیں شوگر ہے دوسرے جنہیں شوگر نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیماری تھوڑا بہت ہمیں بھی لاحق ہو گئی ہے۔ لوگ ہمیں ٹھیک ہی ڈراتے تھے کہ چینی کم استعمال کریں مگر طبیعت اس پرہیز کی طرف اس لئے نہیں آتی تھی کہ ہم نے ابو علی سینا کا قول پڑھ رکھا تھا کہ جتناپرہیز ایک مریض کے لئے ضروری ہے اتنی ہی بدپرہیزی ایک تندرست کے لئے لازم ہے ۔پھر کیا تھا زندگی کو میٹھا میٹھا رکھا ہے۔بے اعتدالیاں آخر رنگ تو دکھاتی ہیں شوگر نے اپنے کام تو کرنا تھا ہمارا معمول بھی تو بہت خوفناک تھا کہ ناشتہ میں حلوہ تیار کروایا جا رہا ہے گنے کا جوس چھوٹا نہیں بڑا مگ نوش کرنا اچھا لگتا تھا، چونسہ لائے آدھ کلو سے زیاد پیٹ میں اتار لیا کیک اور مٹھائی تو عام سی بات تھی۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ کولڈ ڈرنک میں چینی بہت زیادہ ہوتی ہے ہم تو کھانے کے بعد ٹھنڈی ٹھار بوتل لازمی سمجھتے تھے۔ ٹیسٹ کروانے کی زحمت ہی نہیں کی کہ سچی بات یہ کہ ایک خدشہ سا لگا رہتا تھا کہ اگر شوگر نکل آئی تو زندگی پھیکی ہو جائے گی ۔بس وقت گزرتا رہا اور ہم ہوتے ہوتے شیریں بدن ہو گئے۔ حج سے پہلے کزن نے چیک اپ کر ڈالا تو ہمارے ہوش اڑ گئے۔ پھر ہم حج پر چلے گئے کہ آکر دیکھا جائے گا اور حج کی برکت سے شاید ویسے ہی شفا مل جائے۔ دوائی کھانا تو مگر سنت ہے خیر وہاں ہم ہر طرح کے ڈوکے اور کھجوریں علاج سمجھ کر کھاتے رہے پھر کھانابھی سرکاری طرح کاکہ میدے کی ادھ پکی روٹی کیا کرتے کہ وہاں ہم اور کہاں جاتے۔ پائوں میں بہرحال ایک سوئیاں چبھنے کا احساس شروع ہو گیا۔ یک نہ شد دو شد کہ وہاں ہمیں سینے میں وائرس اٹیک ہو گیا جسے عام لوگ حج وائرس بھی کہتے ہیں کہ اکثر کو ہو جاتا ہے اس نے مگر ہمیں تو ہلا کر رکھ دیا۔ واپس آئے تو کمزوری اور نقاہت بھی، وزن کم ہو گیا۔ ڈاکٹر محمد امجد اور ڈاکٹر ناصر قریشی سے مشورہ کیا تو انہوں نے چند دن ریسٹ اور پرہیز کا بتایا کہ پھرٹیسٹ کریں گے صبح کی سیر ضروری قرار دے دی گئی۔ ہم تو باغ کے چکر لگانے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ یہ کتنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ایک شخص کو تو میں نے ہمیشہ دوڑنے کی حالت میں دیکھا۔ میں سوچتا ہوں اس کی زندگی دوڑتے دوڑتے ختم ہو جائے گی۔ جب لوگوں سے لیک سلیک ہونے لگی تو پتہ چلا کہ اکثریت تو اسی شیریں مرض میں مبتلا ہیں اور اس کے لئے سیر ٹونک ہے ۔سیر کے باوجود بھی آفاقہ نہ ہوا تو میں دوبارہ اپنے دوست ڈاکٹروں سے ملا۔ ڈاکٹر محمد امجد جو میرے کلاس فیلو سے زیادہ بھائیوں کی طرح ہیں کہنے لگے کہ آپ ڈاکٹر ارشاد حسین قریشی کو دکھائیں جو آپ کے کنگ ایڈورڈ کالج میں مشاعرے کرواتے ہیں۔ میں حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا کہ میرے ذھن میں تو ڈاکٹر ارشاد حسین کا امیج ایک ادیب اور دانشور کا تھا کہ برسوں سے ہم انہیں ادبی نشستیں کرواتے دیکھ رہے ہیں محکموں میں تو ہم شاعروں کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتے کہ یہ کسی اور دنیا کے پنچھی ہیں۔ حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر ارشاد حسین کی اپنے شعبہ میں بہت مثبت شہرت ہے وہ کلاس بھی پڑھاتے ہیں اور جب غیر ملکی ٹیم سروے کرنے آئی تو انہیں بیسٹ ایوارڈ دیا گیا کہ وہ اپنی کلاس سے ہمیشہ فیڈ بیک بھی لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان دنوں رجسٹرار بھی بن چکے ہیں۔ ہماری تسلی ہو گئی کہ ہمارے ہردلعزیز اور مسکراتے ہوئے ڈاکٹر صاحب بڑے کمال کے ڈاکٹر نکلے۔ ہم نے انہیں فون کیا تو فرمانے لگے کہ کلینک پر ہی آ جائو مجھے اندازہ ہو گیا کہ میوہسپتال میں ان کی مصروفیات کچھ زیادہ ہی ہونگی۔ پھر ہمارے درمیان ادب کی گپ شپ بھی تو ہونا تھی۔ میں اپنے تین ماہ والے ٹیسٹ ساتھ لے گیا ٹیسٹ کانام مجھے نہیں آتا مگر اس ٹیسٹ پر پچھلے تین ماہ کی شوگر لیول رپورٹ ہوتی ہے۔ اس میں 6.78تو ہم نے بھی پڑھ لیا اور یہ بھی لکھا تھا کہ آخری سیف فگر 6.75ہوتی ہے۔ خیر چیک اپ ہمارا بہت ہی اچھے انداز میں کیا گیا اور ہماری شاعرانہ کیئر لیس نیس کا تذکرہ ہوا اور پھر ایک عدد گولی فی الحال ہمارے لئے ناشتہ سے پہلے تجویز کر دی گئی۔ ساتھ سیر کو معمول بنانے کا کہا گیا۔ اب ایک بہت دلچسپ ذاتی سی بات آپ کی دلچسپی کے لئے ، کہ ڈاکٹر ارشاد حسین قریشی کہنے لگے کہ سعد آپ کو یاد نہیں مگر میرا حافظہ بہت اچھاہے کہ میں ڈاکٹر محمد امجد جب وہ طالب علم تھے کو ملنے کے لئے بہاولنگر سے چشتیاں کالج میں گیا تو وہاں آپ کرسی پر براجمان تھے اور مجھے دیکھتے ہی پوچھنے لگے کہ آپ کے کتنے نمبر آئے ہیں میں نے بتایا کہ 750تو آپ نے آنکھیں کھول کر حیرت کا اظہار کیا پیارے قارئین حیرت اس لئے تھی کہ میں نالائق طلبا میں تھا دوسرایہ کہ یونین میں تھا تب 850میں سے 750بہت زیادہ نمبر تھے اب تو کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ نمبروں کا برا حال ہے۔ گیارہ سو میں ایک ہزار تک ہی آ جاتے ہیں یہ سارا نظام کا قصور ہے ڈاکٹر بننے والوں میں لیاقت اور قابلیت کم نظر آتی ہے نمبر زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ شوگر میں پتہ چلا کہ ایک پینکر باز بھی ہوتا ہے جو اضافی شوگر کو ہضم کرتا ہے یا جذب کرتا ہے جب یہ بیچارا تھک جاتا ہے تو زیادہ چینی کھانے والے کو کہہ دیتا ’’بس بھائی اپنے ہاتھ کھڑے ہیں‘‘ پھر اضافی شوگر آپ کے خون میں حل ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجوہات صرف چینی ہی نہیں ٹینشن انگزائٹی اور ڈیپریشن وغیرہ بھی ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی ٹینشن رہتی ہے کہ آخر یہ ٹینشن ہے کیا۔ یقینا اس کی وجہ کھاد والی سبزیاں وغیرہ ہی ہیں۔ آپ یقین کریں جس بھی سیر کرنے والے سے بات ہوئی کہانی اس کی شیریں ہی تھی۔ ہمارے قریبی دوست ندیم خاں تو غصے میں کہنے لگے یار!بندہ کیا کرے کیا کھائے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اپنے ہاتھ کے برابرچپائی کھائیں پھر جو کا دلیہ اور برائون بریڈ۔ جو کا دلیہ تو ہمیں ہمارے معروف کالم نگار عامر خاکوانی نے بتایا ہے۔ ویسے جن لوگوں کوعلم نہیں تو شوگر فری آٹا بھی ملتاہے۔ شوگر فری مٹھائی بھی عام دستیاب ہے۔ شاید شوگر فری آئس کریم بھی ہو گی۔ گویا اس بیماری نے باقاعدہ ایک شوگر فری انڈسٹری کھڑی کر دی ہے۔ یعنی کاروبار کو چلا دیا ہے برائون رائس اور شوگر فری رس تک ہیں۔ یہ تو میرا ناقص علم ہے آہستہ آہستہ پتا چلے گا کہ کیا کچھ دستیاب ہے۔ کینڈرل اور سکرال تو دودھ اور چائے کو میٹھا کرنے کے لئے سب سے زیادہ استعمال ہو رہی ہے۔ قارئین !اس کالم کا مقصد یہ ہے کہ اپنا چیک اپ کرواتے رہیں۔ بیماری بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کی شفا بھی۔ شوگر میں یقینا انسان کی زندگی اچانک پھیکی پھیکی سی ہو جاتی ہے۔ ویسے شوگر ایک طرز زندگی کا نام۔ یہ آپ کی عادات بدل دیتی ہے۔ علی الصبح اٹھ کر آپ تو سیر کرنا ہی پڑے گی۔ پیٹ بھر کر کھانا آپ نہیں کھا سکتے۔ کم مقدار ہی لینا پڑتی ہے بیکری آئٹم سے آپ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔شوگر کے ٹیسٹ آپ کرنے لگتے ہیں۔کچھ دوست اسی بات پر حیران ہوئے کہ آپ کو ساٹھ سال بعد شوگر کیسے ہوئی۔ شاید ان کی حسرت ہو کہ ہم بھی جوانی میں چینی سے محروم ہو جاتے۔ لی جیئے ہم نے تو کالم لکھ دیا اور مجھے اچانک انور مسعود کا شعر یاد آ گیا کہ ناروے گئے تو وہاں ہر جگہ وہ انسولین کا ڈبہ اٹھائے رکھتے تھے ہر کھانے سے پہلے انسولین انجیکشن۔ پھر انہوں نے مزیدار شعر سنایا: مجھ کو شوگر بھی ہے اور پاس شریعت بھی ہے میری قسمت میں ہے میٹھا نہ ہی کڑوا پانی