بعض مضامین کا بار بار باندھا جانا قدرت کی طرف سے ہوتاہے۔ اچھا ہوا کہ بے ترتیبی نے راہ پائی اور یہ رحمت ٹھہری۔ جاوید چودھری کے خیالات پر ڈاکٹر حسین پراچہ اور عامر خاکوانی کی رنجش نے جو مہمیز کا کام کیا تھا اس طرح اس پر مرے تاثرات قہند مکرر کے طور پر دیکھنے کے ساتھ اب یہ موقع بھی ملا ہے کہ اس پر مزید مضمون باندھ جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تو مرے لیے من بھاتا کھاجا ہے‘ ترنوالہ ہے۔ برسوں کراچی میں رہا ہوں‘ اس موضوع پر نہایت سنجیدگی سے نبردآزما ہوتا آیا ہوں۔ ویسے 70کے انتخابات کے نتائج کے بعد سے یہ نکتہ ایک چیلنج بن کر میرے سامنے رہا ہے۔ بڑے کشٹ کاٹے ہیں۔ ان انتخابات میں ’’ہمیں‘‘ شکست ہوئی تھی۔ ہم کہ ’’شوکت اسلام‘‘ کے گھوڑے پر سوار تھے۔ ہم اس صورت حال کو سمجھ نہ سکے تھے۔ لیکن جلد بات سمجھ آنے لگی۔ جو بات پنجاب کے خلاف کہی جا رہی تھی‘ وہ ذرا گہرائی میں جا کر پنجاب کے لیے مایۂ فضیلت بن سکتی تھی۔ صرف زاویۂ نظر کا فرق تھا۔ میں نے اس شکست کو تسلیم تو نہیں کیا تھا‘ مگر سمجھ لیا تھا۔ ڈاکٹر حسین پراچہ اور عامر خاکوانی بیک وقت ایک ہی دن اس پر سیخ پا ہوئے ہیں۔ کسے غصہ نہ آئے گا اگر اسے کوفی کہا جائے۔ مگر ایک لمحے کے لیے ہم جاوید چودھری کی نفسیات کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں۔ تو شاید کچھ اور پہلو بھی سامنے آئیں۔ وہ ایک نہایت معتبر اور جید تجزیہ نگار ہیں ایک بار محترم و مکرم عبدالقادر حسن نے لکھا تھا کہ ہم پنجابی اپنا احتساب کرنے میں بڑے سخی ہیں۔ خود پر تبریٰ کرنا اور اپنے اوپر طنز کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ موجودہ صورت حال میں جب جاوید چوہدری نے دیکھا ہو گا کہ لوگ جوق در جوق پارٹی بدل رہے ہیں تو ان پر کیا گزری ہو گی۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ کیا ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ روح کے اندر ایک بھونچال آیا ہو گا۔ ایسے لمحے ہم پر کئی بار گزر چکے ہیں۔ مجھے یہاں تین نکات پر مرحلہ وار گفتگو کرنا ہے۔ کیا حرج ہے بات کو سمجھ لیا جائے۔ یہ بات میں برسوں سے سنتا آیا ہوں کہ پنجاب نے ہر حملہ آور کا دریائے سندھ کے کنارے استقبال کیا اور اسے پانی پت تک چھوڑ آیا۔ سوائے راجہ پورس کے جس نے پنجاب کی دس ہزار سالہ تاریخ میں صرف ایک بار مزاحمت کا ثبوت دیا تھا۔ کراچی میں ایک بار ایک بہت ہی سنجیدہ محفل میں ایک معروف پنجابی دانشور نے کوئی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ایک ایسا ہی مضمون باندھا۔ جس میں ویسے پنجاب کی عظمتیں بھی اپنے انداز میںگنوائی گئی تھیں۔ گیتا اسی کے دریائوں میں تیرتے بجروں کے سنگ لکھی گئی ٹیکسلا اور ہڑپہ کی عظیم تہذیب کا تذکرہ تھا۔ سنت فرید کے اشلوک تھے۔ یہ سنت فرید ہمارے بابا فرید تھے۔ جنہیں پنجابی بنا کر سنت بنا دیا گیا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہاں بڑے زور و شور سے یہی بحث چل پڑی جس کا اوپر تذکرہ آیا ہے بالکل انہیں لفظوں میں۔ جمیل الدین عالی نے مجھ سے کہا کہ تم بتائو کہ اس پر کیا کہتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ میں تاریخ کے اس پہلو کو ایک اور طرح بیان کرتا ہوں۔ کسی کو اعتراض ہو تو بتا دے۔ عرض کیا کہ جی ہاں راجہ پورس نے شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی مزاحت کی۔ پھر پنجاب آہستہ آہستہ مسلمان ہو گیا اور اس نے ہر مسلمان حملہ آور کا استقبال کیا،دلی کے ہندو اثرات سے مغلوب حکمرانوں کے خلاف، یہ فقرہ میں نے جانے کیوں انگریزی میں کہاتھا اور مجھے اب تک یاد ہے۔ Punjab Welcomed Every Muslim Invader Against the Tyrany of Hindu Dominated Dehli Rule. وہ بڑے چائو سے ان مسلمان نجات دہندوں کو لے کر آتے تھے اور دلی کے تخت تک ان کا ساتھ دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ بدل جاتے تھے‘ ان پر مقامی اثرات اقتدار کی خاطر غالب آ جاتے تھے۔ پھر شمال کی طرف دیکھتے۔ یہ کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ ہمارے قرنِ آخر میں ہمارے بہت بڑے نابغہ شاہ ولی اللہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ شمال کی طرف اس نیت سے دیکھا ہے۔ محفل میں ایک سناٹا چھا گیا۔ سلیم احمد نے کہا‘ اب جواب دو۔ مزید عرض کیا کہ آخری حملہ آور پنجاب سے نہیں آئے تھے۔ وہ بنگال کے راستے برصغیر میں داخل ہوئے تھے۔ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کو روندتے ہوئے دلی پہنچے تھے صرف میر صادق اور میر جعفر ان کے ساتھ تھے‘ شہر میسور کو گرانے میں اس ریاست حیدر آباد نے بھی انگریز کا ساتھ دیا جس کا ہم آج ہم بڑے فخر سے تذکرہ کرتے ہیں۔ جنرل بخت خاں اصرار کرتے رہے کہ میرے ساتھ چلو میں انگریز کو تگنی کا ناچ نچا دوں گا۔ مگر بوڑھا شہنشاہ ہند دہائی دیتا رہا کہ کوئی ہمیں پاپوش پہنائے کہ ہم بھی بھاگ سکیں جب بات پنجاب تک پہنچی تو پنجاب اپنے ہی مقامیوں کے قبضے میں تھا۔ سکھوں نے تباہی مچا رکھی تھی مسجدوں کو اصطبل بنا ڈالا تھا کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ پنجاب مزاحمت نہ کر سکا۔ شاید مزاحمت کی خواہش تھی نہ ارادہ۔یہ پنجاب ہی کی نہیں برصغیر کی بھی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ ویسے یہ چھوڑیے‘ پنجاب دریائے سندھ کے کنارے جن حملہ آوروں کا استقبال کرتا تھا وہ کیا خلائوں سے یہاں پہنچے تھے۔ دریائے سندھ کے اس پار بھی بڑے جیالے لوگ بستے تھے۔ ان کو کیا سانپ سونگھ جاتا تھا۔ ان لوگوں کو بہت سے حملہ آور پسند بھی نہ تھے۔ پشتو کا قومی شاعر خوشحال خاں خٹک تو اقبال کے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ مجھے وہ سرزمین چاہیے جہاں مغلوں کے گھوڑوں کی خاکِ پا تک نہ پہنچے۔ ہاں یاد آیا‘ ایک حکمران ایسا تھا جسے سندھ کے کناروں پر خوش آمدید نہ کہا جا سکا۔ یہ خوارزم شاہ تھا۔ وسط ایشیا کی سلطنت کا بہادر حکمران تھا اس وقت دلی کے تخت پر ایک بڑا ہی نیک و پارسا مسلمان حکمران جلوہ افروز تھا جس کا نام التمش تھا۔ اس نے لکھا ہلاکو خاں کا لشکر میرے پیچھے چلا آ رہا ہے۔ تم مجھے اپنی سرزمین میں آنے کی اجازت دو تو میں اس ہلاکو خاں کی فوج کا تیا پانچہ کر کے رکھ دوں گا۔ اس وقت خوارزم شاہ پسپائی کی حالت میں تھا۔ دلی سے جواب آیا میں نے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ایک کشتی بنا لی ہے‘ مجھے ڈر ہے وہ تمہارا بوجھ سہار نہ سکے گی۔ اس کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ وہ بہادر خوارزم شاہ کہاں گیا۔ کوئی کہتا ہے اس نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر جان دے دی‘ کوئی کہتا ہے وہ پہاڑوں میں کہیں کھو گیا۔ اس سے ملتی جلتی داستان جنرل بخت خاں کے بارے میں بھی سنائی جاتی ہے۔ تاریخ خاموش ہے کہ وہ کن جنگلوں میں کھو گیا۔ مجھے ہمیشہ اس کا افسوس رہتا ہے کہ کاش ہم اس مسلم مجاہد کا استقبال کر سکتے۔ مگر دلی کا بادشاہ بھی ٹھیک کہتا تھا یہ ہماری تاریخ ہے۔ دوسرا نکتہ جس کی جاوید چودھری نے شکایت کی ہے بظاہر دیکھا جائے تو درست کہا ہے۔ وہ یہ کہ بلوچ اپنے سرداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فضل الرحمن ‘ اسفند یار ولی دو تین نسلوں سے ووٹ لیتے آئے ہیں۔ سندھ کا یہی حال ہے۔ آخر پنجاب کیوں بدل جاتا ہے یا بدل رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس لیے کہ ہم کوفی ہیں۔ میں تاریخ کا ذرا مختلف انداز میں مطالعہ کرنے کا عادی ہوں چاہے اس کے لیے مجھے مخالفوں کی مدد لیناپڑے۔ (جاری ہے)