کہتے ہیں’’مائنس ون‘‘منصوبہ ہے،اس کے لئے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے‘کسی حد تک بھی جاناپڑے ۔ اس منصوبے کو بہر صورت کامیاب ہونا ہے‘لیکن’’مائنس ون‘‘یعنی ایک سے نجات کے منصوبہ ساز اپنی طبعی عمر گزار کے دور دیس سدھار گئے۔وہ نکل جاتی ہے سچی بات جس کے منہ سے مستی میں‘اس نے کہا تھا آپ کو تین سال رہنا ہے ہم یہیں رہیں گے‘ تین کیا کئی دربدر ہیں‘ منصوبہ ساز نہیں رہے تو وہ منصوبے بھی نہیں رہے‘ نئے منصوبہ ساز نئی منصوبہ بندی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک اور تاحیات نااہل کو میدان میں اتارنا‘ اسی ایک سے نمٹنے کے لئے ہے؟ نہیں ‘ بلکہ یہ تین سے نجات حاصل کرنے کا منصوبہ ہے‘ جی ہاں ایک نہیں تین‘ ایک تو وہی ہے جسے سب جانتے ہیں مگر کہنے میں ججھکنے لگے ہیں‘ نواز شریف اور زرداری بھی‘ ان کی بدنامی اور ناکارکردگی نے ‘ کاریگروں کی بھی ’’ہیٹی‘‘ کروا دی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ نہ وہ بات ہوئی نہ یہ بات ہو گی۔ منصوبہ سازوں کے منصوبے میں نقص تھا اور نقص ہے ۔اول اول ایک تاحیات نااہل پر بھروسہ کر کے شروعات کی گئیں، ناکام ہوئے تو نئی منصوبہ بندی کے لئے ’’مردم شناسوں‘‘ کی نظر دوسرے تاحیات نااہل پر آن ٹھہری۔ جو کام ایک نااہل کی قیادت اور سرپرستی میں تیرہ سیاسی جماعتیں اور سہولت کار مل کے نہیں کر سکے، وہی کام ایک اور تاحیات نااہل کیونکر کر گزرے گا؟ اس نااہل اول کو تیرہ کے تعاون سے صرف ایک شخص سے نمٹنا تھا جبکہ نااہل ثانی کے ذمے ایک نہیں‘ تین کو نمٹانا ہے ’’آغاز سے واقف ہو انجام بھی دیکھو گے‘‘ ہاں انجام بھی دیکھو گے بلکہ اس فلم کا انجام تو اس کے آغاز میں نمایاں ہے۔ جس شادی کی تقریب میں جوش کی بجائے پژمردگی اور خوشی کی بجائے مایوسی ہو، دلہن کی سکھی سہیلیاں ‘ بہن بھائی اور قریب و دور کے رشتے دار غم زدہ ‘ افسردہ شریک ہوں، گویا شادی کی تقریب نہیں کسی جوان رعنا کی ناگہانی موت پر پرسہ دینے آئے ہوں‘ اس کے انجام کے لئے کنڈلی بنانے اور ستارہ شناسوں سے پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ چارہ گروں کی بے چارگی پر رحم آتا ہے‘ پہلے سے ان کے کاندھوں پر بوجھ ہے‘ لاشیں جو گل سڑ کے بو دینے لگی ہیں،ان لاشوں کو کندھوں سے اتار کر مٹی میں دفن کرنے کی بجائے درجنوں نئے مردے بھی لاد دیے گئے ہیں کہ انہیں ملکوں ملکوں لئے پھرو اور کسی معجزے سے ان کے جی اٹھنے کا انتظار کرو‘مردوں کے جی اٹھنے کا انتظار کرو‘ کب یہ جی اٹھیں، عنان حکومت سنبھالیں ہماری اور قوم کی تقدیر بدل ڈالیں ۔گویا یہ روز حساب سے بعد کا منصوبہ ہے‘ صورِ اسرافیل کے صدیوں بعد کا منصوبہ۔ جری لشکر کے چند بھگوڑے‘جی ہاں‘بہادر جنگ جوئوں کی فوج میں مال غنیمت کے لالچ میں شریک مسافر پہلی گولی فائر ہوتے ہی بھاگ نکلے‘ بھائی ہم مال غنیمت میں شریک ہونے آئے تھے، خون دینا اور جان لینا، آپ بہادروں کا کام ہے‘ جنگ ختم ہو اور آپ جیت چکو تو پھر آواز دینا ہم مال غنیمت کے بوجھ کو آپ کے ساتھ ضرور بانٹ لیں گے! عمران خاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے چند دن بعد ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں جناب مجیب الرحمن شامی صاحب سے سوال پوچھا گیا تھا کہ حکومت سے نکلنے کے بعد خان کی مقبولیت یکایک آسمانوں کو چھونے لگی ہے تو نئی نویلی حکومت خان کا مقابلہ کس طرح کرے گی؟ شامی صاحب نے کہا تھا‘ شہباز شریف کی کارکردگی کی دھوم پاکستان سے ہوتی ہوئی دوست ملکوں تک پھیل چکی ہے‘ آئندہ انتخابات میں مقبولیت کا مقابلہ کارکردگی کے ساتھ ہونے والا ہے۔دیکھئے کارکردگی رنگ دکھاتی ہے یا مقبولیت رنگ جماتی ہے‘ ایک سال سے چند ماہ اوپر ہوئے کارکردگی منہ چھپائے پھرتی ہے‘ کارکردگی کو دو بار مقبولیت کے ساتھ مقابلہ درپیش ہوا‘ پنجاب کے بیس (20) انتخابی حلقوں میں معرکہ درپیش تھا اور پھر قومی اسمبلی کے انتخابات کے لئے میدان سجایا گیا‘ حکومت اپنی، الیکشن کمیشن اپنا‘ پولیس اپنی، اسٹیبلشمنٹ اپنی ،الیکشن کرانے والا عملہ بھی اپنا اور کارکردگی بھی اپنی۔ سب کے باوجود انتخابی نتائج بیاسی (82) فیصد مقبولیت کے نام رہے۔ وہ دن جائے آج کا آئے‘ انتخابات کے نام سے سب کی ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔کارکردگی کی حالت بقول آغا شورش کاشمیری اندھیری رات کی تنہائی‘گھنے جنگل کی مسافت میں جس طرح گناہگار کا دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے،وہی حالت طاری ہے اور رہے گی۔کارکردگی اور مقبولیت کا مقابلہ ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا‘ کارکردگی منہ کے بل پڑی ہے‘ کارکردگی نے میدان سے منہ موڑ لیا‘ نیا مقابلہ شروع ہو چکا ہے‘ پاکستانی ہی نہیں پوری دنیا دم سادھے اس خوفناک معرکے کے انجام کی منتظر ہے‘ مقبولیت کا مقابلہ طاقت سے صبر کا مقابلہ جبر سے‘ عدم تشدد کا سامنا خوف اور وحشت سے۔ دیکھیے چرخِ نیلی فام کیا رنگ دکھائے ہے‘ پاکستان میں مایوسی پھیل گئی ہے‘ عام و خاص سب کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں‘ لوگ نان جوئیںکو ترس رہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہیں‘ دکانیں بھری رکھی ہیں لیکن خریدار نام کو نہیں‘ عید شبرات میں بھی مارکیٹوں میں عام دنوں کا ہجوم نہیں‘ سکولوں کی فیس تک سفید پوش کے لئے جان جوکھم کا کام ہے مگر کیا مایوس ہونے سے‘ رونے چلانے سے ‘ واویلا کرنے سے قوموں کی حالت سنبھل سکتی ہے؟ نہیں تو؟ نوابزادہ نصراللہ خاں ایسے حالات میں پکار اٹھتے تھے: پھر شور سلاسل میں سرور ازلی ہے پھر پیش نظر سنت سجاد ولی ہے اک برق بلا کو ند گئی سارے چمن پر تم خوش کہ مری شاخ نشیمن تو ہری ہے غارت گری اہل ستم بھی کوئی دیکھے گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے وہ حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل اٹھو کہ یہی وقت کا فرمان جلی ہے ہم راہ روِدشت بلا روز ازل سے اور قافلہ سالار حسین ابن علی ہے! ……… کتنے بے درد ہیں صر صر کو صبا کہتے ہیں کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں غم نہیں گر لب ِاظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی تو اک طرز نوا کہتے ہیں کشتگان ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں اہل دانش جو جفائوں کو وفا کہتے ہیں کل بھی حق بات جو کہنی تھی سردار کہی آج بھی پیش بتاں نام خدا کہتے ہیں یوں تو محفل سے تری اٹھ گئے سب دل والے ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں