بے چارگی سی بے چارگی ہے۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کے سوا کوئی راہ نہیں، التجا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ رحم فرما، یارب رحم فرما۔ رحمتہ للعالمینؐ کی امت پہلے ہی کتنی مفلس ہو گئی۔ کہیں کہیں کوئی چراغ جلتاہے، بارِ الہا اسے جلتا رکھ۔ تاریکی بہت گھنی اور گہری ہے، بہت گھنی اور گہری۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں کوئی شاہانہ مسہری وہاں نہیں اور نہ اس پہ کوئی بیمار شہزادہ۔اپنے لاڈلے فرزندہمایوں کی زندگی سے ظہیر الدین بابر مایوس ہوگیا۔ بابر جو بہادری، سخت جانی، مستقل مزاجی، بے ساختگی اور صدق بیانی کا ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ لاچار آدمی نے پوچھاکہ اب کیا کیجیے۔ سرکارؐکے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ کسی مریض کا صدقے سے بہتر علاج نہیں کیا گیا۔ کہا: صدقہ دیجیے۔کوہِ نور، دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا جو اب تاجِ برطانیہ میں جڑا یاد دلاتا ہے کہ محکوم کی متاع کس طرح فاتحین کے ماتھوں پہ جگمگایا کرتی ہے۔ ’’میرے پیارے فرزند کی زندگی کے بدلے میں ایک پتھر؟‘‘ شہنشاہ نے کہا اورایک ناقابلِ یقین فیصلہ کیا۔ بابر نے مسہری کے گرد سات چکر لگائے اور کہا: یارب فرزند کے بدلے،میری زندگی قبول کر۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بیمار ہیں۔ کرونا کے مریضوں کی خدمت کرتے وائرس نے خود انہی کو آن لیا۔خیال یہ آیا کہ کہ کوئی مسہری ہوتی تو اس کے گرد چکر کاٹ کر یہ حقیر دعا کرتا: یارب میری زندگی ڈاکٹر صاحب کو لگ جائے۔ حوصلہ ان کا قائم ہے اور امید بھی۔حالت الحمد للہ بگڑی نہیں۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ جس کے لیے اللہ کی مخلوق دعا کرتی رہے، وہ زندگی دراز کر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے لیے دعا کرنے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں۔ چترال سے صحرائے تھر اور تھر سے کراچی کے ساحل تک، تھر پارکر کے ہندو ان کی تنظیم اخوت کو بھگوان کا بینک کہتے ہیں۔ مسلمان بھائی انہیں مساجد میں دیکھتے ہیں اور عیسائی اپنے گرجا میں۔ سب جانتے ہیں کہ لگ بھگ تیس لاکھ خاندانوں میں تیس ارب روپے سے زیادہ رقم وہ بانٹ چکے۔ اپنی ساری زندگی اہلِ حاجت کی نذر کر دی اور اس انکسار کے ساتھ کہ حیرت ہوتی ہے۔ صوفیا اپنی انا دفن کر دیتے ہیں۔ کچھ مگر صوفیا کے سوا بھی، جن میں نور کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ شہنشاہ نہیں، ڈاکٹر صاحب ایک عامی ہیں۔فدائین مگر اتنے بے شمار کہ کسی بڑے سے بڑے لیڈر کو بھی شاذ ہی عطا ہوئے ہوں گے۔ اپنے مقصد کے لیے دائم یکسو۔ ایک بار پوچھاکہ کیا اخوت کو کبھی روپے کی کمی درپیش ہوئی؟ بتایا: کبھی نہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں، مستقل جن کی پیشکش رہتی ہے کہ جب اور جتنی ضرورت پڑے، اطلاع کر دی جائے۔ ان میں سے ایک و ہ ہے، جس نے اخوت کے ساتھ مل کر قرض ِ حسن کی سکیم شروع کی۔ اللہ کے خوددار بندوں کے لیے جو ہاتھ نہیں پھیلاتے، خیرات قبول نہیں کرتے۔ توکل کیے پڑے رہتے ہیں؛تاآنکہ آسمانوں سے رزق اترتا ہے۔ جب بھی کوئی بھلا آدمی ملتاہے، جب بھی کوئی مصیبت زدہ ملتاہے تو کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح عصرِ رواں کے عارف سے اس کی ملاقات کرا دی جائے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ پکڑا اور انہیں گوجر خان لے گیا۔ مصروف آدمی اتنی توجہ نہ دے سکا کہ مہمانوں کا ہجوم تھا۔ فکر لاحق ہوئی مگر دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب وہی شاد۔ شاید نور کی اسی کرن کو تھامے ہوئے،مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد جو ’’مواخات‘‘کے نام پر طلوع ہوئی تھی۔ عشروں سے تھامے کھڑا ہے۔ اقبال ؒ نے کہا تھا: جہاں کہیں روشنی ہے، مصطفیؐ کے طفیل ہے یا مصطفیؐ کی تلاش میں۔ صلوعلیہ و آلہ۔ ڈاکٹرصاحب کبھی چنیوٹ میں تھے۔ ان دنوں کو کبھی نہیں بھولے۔ اللہ کے بندوں سے ان کی محبت ایسی ہے کہ جہاں کہیں کسی سے ملے، اسے یاد رکھا۔ چناب کے کنارے ا س قدیم اساطیری شہر پر بعد ازاں انہوں نے ایک کتاب لکھی۔ یہ کہ چنیوٹ کے مکین کس طرح اس گرد آلود قصبے سے اٹھے اور برصغیر میں پھیل کر خوشحالی کی چمکتی مثال ہو گئے۔قولِ مبارک کی علامت کہ رزق کے دس میں سے 9حصے تجارت میں ہوتے ہیں۔ چنیوٹ میں ڈاکٹر صاحب اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ کسی نے بتایا کہ دو مکاتبِ فکر میں آویزش ہے۔ ان میں سے ایک مکتبہ ء فکر، جو مقتدر ہے،نعت کی سالانہ محفل منعقد ہونے نہیں دیتا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو برہم ہو جاتا مگر سچے دل سے سرکارؐ کو ماننے والے کا حلم۔ بلایا، بلا کر سمجھایا اور کوئی دن میں جگمگاتی مجلس رونما ہوئی۔ وہ دانائےؐ سبل، ختم الرسلؐ، مولائے ؐکل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا اقبالؒ کے تلازمات سطحی نہیں۔ آسمان سے نور اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسا تھا۔ کیوں نہ برستا کہ قرآن کے اوراز اس کے آنسوؤں سے بھیگتے اور سرکارؐ کی یاد میں آنکھیں نم ہو جاتیں۔ رسول اللہؐ کی امت سے ایسی محبت کم کسی نے کی ہوگی، جیسی اقبالؒنے کی۔ سینہ کوبی میں رہے، جب تک کہ دم میں دم رہا ہم رہے اور قو م کے اقبالؒکا ماتم رہا صحرائے سینا کی تشبیہ اس لیے کہ کوہِ طور پہ کبھی اللہ کا جلال برسا تھا۔ اس واقعے کو نظم کرتے ہوئے اقبالؒ نے لکھا ہے: اپنے کلیم کی آرزو پر تو پہاڑ پہ آگ کی طرح اترا لیکن شمعِ یتیم ﷺپہ پروانہ وار نازل ہوا۔ کوہِ طور سے شبِ معراج تک کی کہانی دو مصرعوں میں لکھ دی ہے۔ کون ایسا شہہ دماغ ہوگا۔پروردگار اپنے رازداں روز روز پیدا نہیں کرتا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے سرکارؐکے پیام کو با اندازِ دگر تھاما۔ ان سے محبت کی تو انکی امت کے ہوگئے۔ پوری کی پوری زندگی اس کے لیے وقف کر دیا۔ مفلس کسان، سیلاب، زلزلہ زدگان، افتادگانِ خاک۔ اپنی بیٹیوں کے غم میں گھلتے ہوئے ماں باپ۔ بے چارے تیسری جنس کے بے چار لاچار اور دکھی لوگ، کرونا کے مارے مجبور لوگ۔کون ہے، جس تک ان کا فیض نہیں پہنچا۔ عظمت اپنے ساتھ خوابِ عظمت لاتی ہے۔ کیسے کیسے حبِ جاہ کے طوفان میں بہہ گئے لیکن ایثار میں انکسار جب بس جائے تو سچی محبت کا وہ بیج پھوٹتا ہے، تہہ در تہہ گلشن جس سے استوار ہو تے چلے جاتے ہیں۔ ابلیس سے پروردگار نے کہا تھا؟ میرے مخلص بندے کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ اپنے کسی ہم عصر کی پروفیسر احمد رفیق اختر نے کم ایسی تعریف کی ہوگی، جتنی ڈاکٹر صاحب کی۔ فرمایا: ایسا کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے کہ کم از کم مجھ ایسے کسی آدمی کے بس میں نہ تھا۔ حالانکہ خود ایسے سخی ہیں کہ لاکھوں پہ سایہ کیا۔ بے چارگی سی بے چارگی ہے۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کے سوا کوئی راہ نہیں، التجا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ رحم فرما، یارب رحم فرما۔ رحمتہ للعالمینؐ کی امت پہلے ہی کتنی مفلس ہو گئی۔ کہیں کہیں کوئی چراغ جلتاہے، بارِ الہا اسے جلتا رکھ۔ تاریکی بہت گھنی اور گہری ہے، بہت گھنی اور گہری۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں