ایک عید اور گزر گئی،اس برس کی عید بھی خوشیوں کے ساتھ غم بانٹتی رہی ،بہت سارے عذابوں کے نشتر سینوں میں چبھو گئی، بہت اذیتیں دے کر رخصت ہوئی یہ عید، خوشیا ں خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے کئی گھر پھراجڑے، غیرت کے نام پر پانچ بچیاں قتل ہوئیں، بہت سارے بچے عید کے دنوں میں ماں باپ کی شفقت سے محروم ہوئے،قصور میں ایک مزدور باپ پٹرول پمپ پر ڈیوٹی کے دوران ڈکیتی مزاحمت پر ماردیاگیا،حالات سے دل برداشتہ چھ لوگوں نے خود کشی کرلی، یہ وہ تعداد ہے جو میڈیا میں رپورٹ ہوئی، ہمارے معاشرے کے انسانوں کے غیر انسانی رویوں کے باعث ایسے حالات میں مرجانے والوں کی خبریں چھپادی جاتی ہیں کہ زمانہ کیا کہے گا؟،،، اگر کوئی پوچھ لے، کیسے مرا؟ جواب ملے گا،اللہ کو یہی منظور تھا۔ ٭٭٭٭٭ چولستان کے صحرا میں خانیوال اڈہ چھب کلاں کی تین کمسن بچیاں طوفان میں گھر کا راستہ بھول گئیں اور ریت کے سمندر میں دب کرجاں بحق ہوگئیں، پانچ سے نو برس کی یہ بہنیں کھیتوں میں مزدوری کرکے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتی تھیں ، گھر واپس لوٹ رہی تھیں کہ طوفان انہیں اٹھا کر لے گیا ،ان بچیوں کا باپ نصیر احمد جو خود بھی مزدور ہے پورے خاندان کے ساتھ بہاولنگر اور جنوبی پنجاب کی آخری تحصیل فورٹ عباس کے تپتے صحراؤں میں اپنا خون ڈھونڈتا رہا،مقامی لوگوں نے بھی مدد کی ،لیکن واقعہ سامنے آجانے کے باوجود، علاقے میں شور مچ جانے کے باوجود پولیس، انتظامیہ یا کسی سیاسی ،حکومتی کارندے نے مدد نہ کی غریب کی۔ بیٹیوں کو ڈھونڈنے کے لئے کوئی ہیلی کاپٹر نہ اڑا،کوئی ریسکیو والے نہ پہنچے، کیونکہ یہ ملک غریبوں کا ملک ہے ہی نہیں، سارے ہیلی کاپٹر اور جہاز پیسے والوں کے استعمال کیلئے ہیں،حکمرانوں کے نجی اور سرکاری دوروں کیلئے ہیں، ہمارے بزرگ دوست اور بہاولنگر کی قابل احترام شخصیت راؤ بشیر احمد نے سوشل میڈیا پر لکھا،آؤ ! انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھیں،ان بچیوں کے لئے نہیں، اس مردہ قوم اور اسکے حکمرانوں کیلئے۔۔۔۔ لاشیں تین دن اور چار راتوں کی تلاش وبسیار کے بعد چاند رات کو ریت میں دھنسی ہوئی ملیں،تینوں بہنوں نے ایک دوسری کے ہاتھ تھام رکھے تھے، ان بچیوں کو موت سے بچانے کا کوئی ریاستی نظام حرکت میں نہ آیا، یہ سانحہ کسی حاکم کے علم میں نہ لایا گیا ہوگا کیونکہ ہمارے حاکم ایسی اطلاعات سننا بھی گوارا نہیں کرتے ، ایسے واقعات ان کی سماعتوں پر بوجھل گزرتے ہیں ، یہاں تو خدا نخواستہ کسی حاکم کو کسی غریب سے ہاتھ ملانا پڑ جائے تو وہ فوراًہاتھ دھونے باتھ روم میں چلا جاتا ہے،عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ہمارے مہربان سینئر سیاستدان بیرسٹر اعتزاز احسن ہمیں یہ نظم سناتے رہے،، ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔۔۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک خواب ہے، موجودہ حالات میں توہماری ریاست کبھی غریبوں کی ماں نہ بن پائیگی، یہ ملک ہی خواص کا ہے، یہاں غریب کے لا پتہ بچوں کو تلاش کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں اب تو ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں ،اندازے ہی لگا سکتے ہیں کہ کیا یہ تین کمسن بہنیں صحرائی طوفان میں کھو جانے کے پہلے ہی دن مر گئی تھیں؟ ایک ہی وقت مر گئی تھیں، یا ایک ایک کرکے ایک دوسری کے سامنے مرتی رہیں؟ یا ان کمسن بچیوں نے تین دن مسلسل موت کے سامنے مزاحمت کی اور اگر کی تو کیسے؟وحشتوں کے یہ لمحے کیسے گزارے ہونگے ان معصوموں نے؟ بھوک پیاس کیسے برداشت کی ہوگی؟ پانچ سالہ بچی جب پیاس کی شدت سے پانی کا تقاضہ کرتی ہوگی تو اس کی بڑی بہنیں سات سالہ فاطمہ اورنو برس کی سرویااسے کیسے بہلاتی ہونگی؟ وہ کتنا چلائی ہوں گی ، کتنی شدت سے مدد کو پکار رہی ہوں گی۔ کتنے زور سے چیخی ہوں گی ؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خوف نے ان کی قوت گویائی ہی چھین لی ہو ؟چولستان میں جب یہ تین ننھی بہنیں راستہ بھٹکیں اس وقت گرمی پنتالیس ڈگری تھی، اسی قیامت میں اٹھانویں میل کی رفتار سے طوفانی آندھی چلی، سوچئیے! وہاں کیا ہوا ہوگا ؟ وہاں کیا کیا نہ ہوا ہوگا؟،۔ مجھ میں تو اور لکھنے کی تاب نہیں ، اس دکھ کا تو کوئی حساب بھی نہیں، شاید ہی کوئی اس المناک واقعہ کی منظر کشی کر سکے،صرف سوچا ہی جا سکتا ہے، انسانی سوچ ختم ہو سکتی ہے، ان لمحات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔اے عید کے چاند، کاش تواس وقت نکلتا،جب سارے دکھ ،سارے درد سو گئے ہوتے ۔اے میرے خدا! اپنی غریب مخلوق کیلئے ایک اور دنیا ایک اور جہاں بنادے، جہاں وہ ایک دوسرے کو پرسا تو دے سکیں، روٹی آپس میں بانٹ تو لیا کریں، درد کا اک نگر ہو اور اس کے باسی صرف درد کے مارے ہوئے لوگ ہوں،،،، ٭٭٭٭٭ فیصل آباد میں اٹھارہ سالہ بس ہوسٹس مہوش کو دوسرے بس ٹرمینل کے گارڈ نے مزاحمت کرنے پر گولی مار کر ہلاک کردیا ،اس بچی نے عزت بچانے کی کوشش کی تھی، اس درندے کے سامنے no کی تھی، یہ درندہ شادی شدہ اور بچوں کا باپ بھی ہے، اسے اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے حراست میں تو لے لیا مگر گرفتاری نہ ڈالی گئی، نگران وزیر اعلی پنجاب حسن عسکری کے نوٹس لینے کے بعد ملزم کوعید کا نیا جوڑا پہنایاگیا، پھر اس کے ساتھ دو پولیس اہلکاروں نے فوٹو کھنچوائی اور سوشل میڈیا پر وائرل کردی، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرمینل کا یہ گارڈ کسی مافیا کا ایجنٹ یا دلال بھی ہو سکتاہے ،اور یہی مافیا اس کی رہائی کے لئے کوشاں بھی ہو سکتا ہے، اسے ڈر ہوسکتا ہے کہ ملزم زبان نہ کھول دے، مقتولہ مہوش کی والدہ نے ایک دوسرے بس ٹرمینل کی فوٹیج دیکھ کر کہا ، دوسری بس ہوسٹس لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں ایک مسلح گارڈ اسی ایریا میں ایک دوسری ہوسٹس کو جبری طور پر ساتھ لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، ہوسٹس کی مزاحمت پر گارڈ اس پر جسمانی تشدد کرتا اور گالیاں بکتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے ٭٭٭٭٭ چترال سے بھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک لڑکا برقع پوش خواتین کی زبردستی ویڈیوز اور تصاویر بناتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، وہ ان خواتین کو انتہائی بدتمیزی سے روکنے کی کوشش کر تا نظر آ رہا ہے، پردے والی بیبیاں اس کے خوف سے بھاگتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ،جب بات پھیلی تو اس لڑکے نے سوشل میڈیا پر اپنی حرکت پر معافی مانگ لی، کیا اس کی معافی کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس کے خلاف اب کوئی کارروائی نہیں ہوگی؟ڈیرہ غازی خان سے بھی اسی نوعیت کی خبر سامنے آئی ہے، جہاں ایک مقامی شاعرہ اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نوجوان بچی کو چلتی وین روک کر گولیاں مار دی گئیں، یہ ظلم کیا مقتولہ کی لاپتہ بہن کے سسر نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ پانچ ماہ پہلے شاہراہ فیصل کراچی میں پولیس نے رکشہ سوار ایک فیملی کو روکا تھا، پہلے مسافروں پر تشدد کیا گیا، پھر ان پر گولیاں چلا دی گئیں، ایک نوجوان مقصود کو ہلاک اور دیگر کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ اب اس واقعہ کی ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے مسافروں کو رکشہ سے اتار کر تشدد کیا پھر ان پر گولیاں چلادیں۔۔۔(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)