دل جب شکووں سے بھر جائے تو اسے کھلا چھوڑ دینا چاہئے، وہ اپنی راہ خود نکال لیتا ہے۔ زندگی بڑی لچک دار ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔ دل اس سے بھی کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے۔جہاں دلیل، منطق، شعور اورادراک تھک کر شل ہوجائیں، وہاں سے اس کا سفر شروع ہوتا ہے۔دل اللہ صمد کا نشان خاص ہے۔ بے نیاز اور وسعت والا۔ اس کے لئے کچھ بھی ناگزیر نہیں۔ ایسا نہ ہو تو زندگی کا سفر رک کر رہ جائے اور کاروبار حیات مکمل ٹھپ۔یہ تو شعور ہے جو ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہمارا گزارا اس کے اور اُس کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی اپنے لوازمات سے بہت آگے کی شے ہے اور دل اسے ہر حال میں جاری رکھنے کیلئے ایندھن کا کام دیتا ہے۔ کل جن کے دیکھے بغیر نیند نہ آتی تھی وہ آج منظر سے غائب اور نظر سے اوجھل ہیں اور ہم زندہ ہی نہیں خوش بھی ہیں۔یہ ہمارے دل کی ہی کارستانی ہے کہ وہ ہمارے گزارے لائق خوشی ڈھونڈ ہی لیتا ہے اور خوشی ہوتی ہی بس گزارے لائق ہے۔ انسان پہ ایک وقت وہ ہوتا ہے جب اسے اپنے دکھ دنیاکے ہر دکھ پہ بھاری لگتے ہیں۔یہ اس کے ذہنی بلوغ سے پہلے کا زمانہ ہوتا ہے۔ میری زندگی، میری نوکری، میرا عشق، میرا گھر،میرے بچے ۔زندگی اسے چکرائے رکھتی ہے۔ضرورتوں اور خواہشوں کے بے انت جال میں وہ بخوشی پھنستا چلا جاتا ہے۔ اس کی کل زندگی ایمرسن کی نظم مکڑا اور مکھی کی تشریح بن کر رہ جاتی ہے۔جہاں اس کی اپنی خواہشات اسے بہلاتی پھسلاتی جال بنے تاک میں بیٹھی ہوتی ہیں۔جب وہ کامل بے بسی مگرخوش فہم سپردگی کے ساتھ اس کاشکار ہوتا ہے تو اس پہ کھلتا ہے کہ و ہ اس جگہ پہلے بھی آچکا ہے۔جا بجا اس کی نا آسودہ خواہشات کے بے جان لاشے ،حد درجہ بڑھی ہوئی توقعات کے تار سے جھولتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہر بار ہوتا ہے لیکن عقل اسے راہ سجھاتی ہے کہ نہیں، اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ ہر بار لیکن ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت دل، جہاں دل یزداں کا سایہ ہے خاموشی سے یہ واردات دیکھتا رہتا ہے۔خاموش یوں کہ انسان نے کبھی اس پہ کان دھرے ہی نہیں۔ وہ تو اپنی بے لگام آرزووں کو دل کی آواز سمجھ کر اس پہ لبیک کہتا اور سراب کنارے دم توڑتا رہا۔ایسا مگر نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔دل کی آواز پہ کان دھرنے کے لئے اور یہ یقین کرنے کے لئے کہ یہ وہی ہاتف صادق ہے، خواہشات کے تہہ در تہہ جال توڑنے ہونگے۔ تبھی آواز دوست صاف سنائی دے گی۔تبھی اس پہ کان دھرنا سودمند ہوگا اور تبھی انسان پہ کھلے گا کہ درحقیقت اس کا منشا کیا ہے۔جب انسان اپنے وجود اور اس کے تقاضائے غیر فطری سے بلند ہوجاتا ہے تو وہ دل جوالوہی رازوں کا امین ہے،اس پہ یہ راز کھولتا ہے کہ اس کا دکھ تو کائنات میں کہیں پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا۔تب وہ ذہنی بلوغت کی اس سطح پہ پہنچ جاتا ہے جب اسے دنیا کے ہر انسان کا دکھ اپنا لگنے لگتا ہے۔ اسے اپنی خواہشات کی آبیاری سے زیادہ کسی اور کی پیاس بجھانے کی فکر ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتاتو وہ تمام عمر العطش العطش پکارتا رہتا ہے لیکن اس کی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔فلیس َمنّی کا سوال اس کے ذہن پہ تازیانہ بن کر پڑتا ہے کیونکہ اس کا دل جوجواب دیتا ہے اس کی عقل کو وہ منظور نہیں ہوتا۔جو اس پکار پہ لبیک کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے وہ تمام پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ پابندیاں جو اس فردوسی مکین کے پاوں خاک سے باندھے رکھتی ہیں۔ ایسے میں ایک عامی کو تعجب ہوتا ہے جب وہ اپنے ہی جیسے کچھ لوگوں کو زمین سے اٹھتے، فضا میں تیرتے اور بیک وقت کئی مقامات پہ پائے جانے پہ متصرف دیکھتا ہے۔ گو یہ شعبدے نہ اصل ہوتے ہیں نہ مقصود۔یہ تو اس تصرف کی معمولی سی جھلک ہوتے ہیں جو اولیا اللہ کو اس لئے حاصل ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل، دل یزداں کے ساتھ ٹیون اپ ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خواہشات سے پیچھا چھڑانا کب معمولی ہوا ہے؟ توقعات سے ہاتھ اٹھانا کب آسان ہوا ہے اور محبتوں سے دامن کھینچنا کب کار سہل ہوا ہے لیکن راز کی بات کہوں تو یہ بس ایک بار ہمت کرنے کی بات ہے۔خواہشات ایک پرفریب فور ڈی فلم جیسی بے حقیقت ہیں۔جب تک آپ تھیٹر میں کرسی سے جمے بیٹھے ہیں، آپ ان کے رحم و کرم پہ ہیں۔یہ آپ پہ خوفزدہ کرنے، ہیجان میں مبتلا کرنے اور خوشی سے پاگل کردینے والی غیر حقیقی احساسات کی بارش کردیں گی اور آپ کو بے دست وپا کرکے وہاں لے جائیں گی جہاں آپ خود بھی جانا چاہتے ہیں کیونکہ آپ نے اسی تفریح طبع کے لئے ہی تو مہنگا ٹکٹ خریدرکھا ہے۔ تو بس آپ خود کو جس قیمت پہ بیچیں گے اتنا ہی وصول کریں گے۔ دل آپ کی قیمت سے آپ کو آگاہ کرتا رہتا ہے ۔آپ کو بتاتا ہے کہ خود کو اس وقتی ہیجان اور عارضی لطف اندوزی کے ٹکٹ پہ نہ بیچا جائے ۔ آپ اس پہ کان نہیں دھرتے کیونکہ آپ نے اسی لئے تو اپنا وجود گروی رکھ دیا تھا کہ دنیاا ور اس کے متعلقات آپ کو جہاں چاہیں لے جائیں اور آرزووں کے جنگل میں بے مہار بھٹکاتے پھریں۔ جس لمحہ آپ اپنی اصل قیمت کا ادراک کرلیتے ہیں اس دن آپ کی نظر میں سب کچھ بے حقیقت ہوجاتا ہے۔ تب آپ دنیا میں یوں رہتے ہیں جیسے یہ کوئی سرائے،کوئی مسافر خانہ ہو۔ آپ ہر آسائش برتتے ہیں لیکن اس سے دل نہیں لگاتے۔آپ ہر شے سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن آپ کو اس کی عادت نہیں ہوتی۔آپ عادت بد میں ہی نہیں عاد ت خیر میں بھی مبتلا نہیں ہوتے۔ آپ ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کہ آپ یہاں ہیں ہی نہیں۔ اور آپ یہاں ہوتے بھی نہیں۔ آپ کا خاکی وجود، مادی دنیا کی مجبوریوں کے باعث یہاں ضرور ٹکا رہتا ہے لیکن آپ کا دل ، دل یزداں کی ڈور سے بندھا آپ کو کائنات میں اڑائے پھرتا ہے اور کبھی بے لگام نہیں ہونے پاتا۔ اس وقت آپ کو اپنی اصل قدر معلوم ہوتی ہے۔اسی وقت آپ شرف انسانیت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اسی وقت آپ کو درماندہ، خاک بسر اور بے سروسامان انسانوں سے اتنی محبت ہوجاتی ہے جتنی آپ اپنی ذات کی اس قدر سے کرتے ہیں جو آپ نے معلوم کرنے کا شرف حاصل کرلیا ہے کیونکہ اسی وقت تو آپ کو علم ہوتا ہے کہ انسا ن کا اصل دکھ نہ روٹی ہے،نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ اس کا دکھ تو وہ شرف ہے جو اس نے کھو دیا ہے ۔ وہ مقام ہے جس سے وہ آج تک آگاہ ہی نہیں ہوا۔ وہ منصب ہے جو اس نے خواہشات کے تعاقب میں کہیں کھو دیا ہے اور دل کی وہ آواز جس پہ اس نے کان نہیں دھرے۔