جنگل میں شیر کی دھاڑ ہمیں ہمیشہ ایک جیسی لگتی ہے حالانکہ وہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ الگ الگ موقع کے لئے الگ الگ دھاڑ اور اس کا علم ماہرین کو ہوتا ہے یا پھر مطلوبہ(مخاطب) کو۔ ایک دھاڑ تب اس کے منہ سے نکلتی ہے جب اسے علاقے میں کسی اجنبی شیر کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس دھاڑ کی للکار سن کر مداخلت کار شیر یا تو علاقہ چھوڑ دیتا ہے یا للکار کا جواب للکار سے دیتا ہے۔ پھر دونوں آمنے سامنے آ جاتے ہیں اور جم کر لڑائی ہوتی ہے۔قہر و غضب سے بھری دھاڑ اس شیرنی کی ہوتی ہے جو بچوں کی حفاظت کر رہی ہو۔ کوئی بھولا بھٹکا جانور ایسی حالت میں قریب آ جائے تو خیر نہیں۔ تیسری دھاڑ پیٹ بھرے شیر کے منہ سے تب برآمد ہوتی ہے جب وہ آرام کا ارادہ کرتا ہے۔ چھوٹے جانوروں کو پتہ چل جاتا ہے کہ قبلہ استراحت کر رہے ہیں‘ یہاں سے نکل چلو‘ لیکن یہ دھاڑ بعض اوقات شیر کے لئے پریشانی کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔ پیٹ بھرا شیر کسی جانور کو مارتا نہیں۔ زخمی تک نہیں کرتا اور کئی بار بندروں اور ہرنوں کو شیر کی اس عادت کا پتہ چل جاتا ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ’’تفریحی چھیڑ چھاڑ‘‘ پر اتر آتے ہیں۔ بندر شیر کی دم کھینچ کر بھاگ جائے گا‘ ہرن سامنے کھڑا ہو کر بھنگڑا ڈالے گا اور شیر کے غرانے پر بھاگ جائے گا لیکن پھر آ جائے گا۔ شیر ان شرپسندوں پر جھپٹنے کی اداکاری کرتا ہے‘ ان کا تعاقب بھی کرتا ہے لیکن مارتا نہیں۔ بہت تنگ آ کر وہ کسی اور ٹھکانے کو نکل جاتا ہے۔ چوتھی دھاڑ شیرنی کے لئے ہوتی ہے۔ اس دھاڑ میں قہر اور غصہ نہیں‘ للکار بھی نہیں‘ محض دوستی کا پیغام ہوتا ہے‘ آس پاس کوئی شیرنی ہو تو‘ چلی آتی ہے۔ ایک دھاڑ اور بھی ہے جو کبھی کبھار ہی بلند ہوتی ہے۔ اس سے ماہرین بھی الجھن میں پڑ جاتے ہیں اور جانور کی۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ شیر کسی کو بھگارہا ہے یا بلا رہا ہے؟ بالکل ایسا ہی ماجرا پاکستان کا ہے۔ کورونا سے ساری دنیا نمٹ رہی ہے اور نظر بھی آ رہا ہے۔ پاکستان بھی بظاہر نمٹ رہا ہے لیکن لگتا ہے کہ نمٹ نہیں رہا‘ کورونا کی میزبانی کر رہا ہے۔ لوگ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت کے اقدامات کا مقصد کیا ہے۔ کورونا کو بھگانا یا بلانا!دنیا بھر میں لاک ڈائون ہے اور بڑا ہی سخت۔ آس پڑوس کو دیکھ لیں۔ ترکی‘ سعودیہ‘ ایران بھارت میں تو کرفیو ہے یا پھر کرفیو سے ذرا ہی کم والی صورت حال۔ پاکستان میں جو لاک ڈائون ہے‘ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے والی صورت حال ہے۔ وفاقی حکومت کی سندھ حکومت سے جو ٹھنی ہوئی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت لاک ڈائون پر عمل پیرا ہے۔ پنجاب اور پختونخواہ میں دیکھ لیجیے پھول کھلے ہیں‘ پات ہرے ہیں‘ کم کم با دوباراں ہے‘ چلتے ہو تو چمن کو چلیے۔ کہتے ہیں کہ بہاراں ہے۔ ہوٹل بند ہیں، تعلیمی ادارے بھی، باقی سب کچھ کھلا ہے‘ وہی چہل پہل۔ اور رہی سہی کسر حکمرانوں کے ’’شوق سخاوت‘‘ نے پوری کر دی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام ہی نہیں بدلا‘ اس کی کایا بھی کلپ کر دی۔ رقم گھروں تک پہنچانے کے بجائے غریبوں کو ہجوم کی شکل میں جمع ہونے کا حکم ہے۔ غریب گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں‘ پھر باری آتی ہے‘ فوٹو کھینچے جاتے ہیں‘ تحریک انصاف کے سخی ایک نہیں‘ کئی کئی تصویریں بناتے ہیں‘ پھر غریب کو جانے کی اجازت ملتی ہے۔ پولیس کو بھی ہاتھ رواں کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وجہ بے بوجہ ہلکا پھلکا لاٹھی چارج کرتی رہتی ہے۔ لگتا ہے کہ کورونا کی ’’سہولت کاری‘‘ میں کمی نہ رہ جائے۔ چنانچہ کورونا بڑھ رہا ہے۔ بات تین تین چار چار اموات روزانہ سے بڑھ گئی ہے۔ پہلے ریکارڈ اموات گیارہ ہوئیں‘پھر پندرہ اور سترہ۔ گزشتہ روز کی تعداد اس امر کے باوجود روز افزوں ہے کہ ٹیسٹ کرنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ ٹیسٹ کی گنتی بڑھائی جا سکتی تھی لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ باہر سے ٹیسٹ کے لئے جو کٹس بھیجی گئی تھیں‘ وہ زیادہ کاروباری ہسپتالوں عرف خیراتی رفاعی ہسپتالوں میں پہنچا دی گئیں۔ جہاں فی ٹیسٹ نو دس ہزار روپے لئے جا رہے ہیں چنانچہ مریضوں کی جو گنتی ہے‘وہ اصل سے بہت کم ہے۔ یہ ہسپتال خاص طور سے اپنے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات کی’’ٹھکائی‘‘ بھی شاید سہولت کاری مہم کا حصہ ہے۔حکومت واضح طور پر لاک ڈائون کے خلاف ہے۔ ایک بندہ انصاف پرور سے پوچھا تو اس نے حکومت کی اس پالیسی کی حمایت کی اور اسے قومی مفاد میں قرار دیا۔ اس کا خیال تھا کہ آفت رسیدہ جتنا زیادہ ہوں گے‘ باہر سے اتنی ہی مدد ملے گی اور یہی تو قومی مفاد ہے۔ ایک انوکھی بات یہ ہے کہ باقی ہر جگہ لاک ڈائون نہ کرنے کے حامی مساجد کی بات آتی ہے تو برہم ہو جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں یہ مسجدیں ہی کورونا پھیلا رہی ہیں۔ دو تین وزیروں کو خاص طور سے مفتی منیب الرحمن کے ساتھ کچھ پرانے لیکن نامعلوم حساب کتاب چکانے کا خوب موقع مل جاتا ہے۔ حالانکہ مساجد والے تین تین فٹ کے فاصلے سے نمازیوں کو کھڑا کر کے نماز پڑھنے کی بات کرتے ہیں۔ پھر بھی بہرحال اس ضمن میں ایک سمجھوتہ تو ہو ہی گیا۔