پاکستان کی سماجی و سیاسی تاریخ میں ستر کی دہائی کو یہ امتیاز ہے کہ اس دہائی میں سماجی سطح پر ایک ایسے رومانس نے جنم لیا ،جس نے اُس عہد کے سوچنے اور غوروفکر کرنے والے افراد کے اندر سنہرے خوابوں کی پنیری لگادی،اگرچہ رومانس سے جڑے خواب مذکورہ دہائی میں ہی بکھر گئے تھے ،مگر آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اُن خوابوں کی پرچھائیاں موجود ہیں۔ستر کی دہائی کے شعراواُدبا راتوں کو جاگتے،خواب دیکھتے،اُمیدوں بھری شعری و نثری کائنات تخلیق کرتے اورہمہ وقت ایک خاص قسم کے رومانس کے سحر میں رہتے۔جس دور میں راتیں جاگیں ،اُس دور میں اُمیدوں کی بارشیں برستی رہتی ہیں۔مگر ستر کی دہائی کے آ خری عرصہ نے غیر یقینی فضا کو جنم دیا،خوف اور دہشت کی درانتیاں ،رومانوی خوابوں کے گلابوں کو کاٹتی چلی گئیں،گلابوں کا طواف کرتی تتلیوں کے پَر بکھر کررہ گئے۔اُمیدوں کے جگنو راتوں کو جاگنے والی آنکھوں میں دَم توڑتے چلے گئے،آنکھوں کی بینائی جاتی رہی،ہر سُو اندھیری رات کا سماں پیداہواُٹھا۔اَسی کی دہائی غیر یقینی دُھند میں لپٹی رینگ رینگ کر گزرتی رہی،یہ دہائی شاعروں اور ادیبوں نے اپنے اپنے وجود سے گزرتی محسوس کی،نوے کی دہائی دُنیا بھر میں رومانس کی دہائی قرار پائی ،یہ بیسویں صدی کی آخری دہائی تھی،پوری دُنیا اِس کو محبت بھرے احساسات سے الوداع کرکے نئی صدی کو گلے لگانا چاہتی تھی،اگرچہ اس صدی میں دوعالمی جنگیں ہو چکی تھیں،جس نے انسانوں کی بستیاں اُجاڑکررکھ دی تھیں ،لیکن دُنیا اس کو اچھے سے وداع کرنا چاہتی تھی۔مگر اِدھر ہمارے ہاںنوے کی دہائی میں اَسی کی دہائی کی پرچھائیاں ،چھتوں پر لٹکتی چمگادڑوں کی طرح ہمارے وجود پر موجود رہیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری زندگی کی ساخت میں رومانویت کے لیے جگہ نہ رہی۔جب دُنیا روشنیوں کی ہمرکابی میں اکیسویں صدی کو ویلکم کر رہی تھی،ہم آمریت کے تاریک سائے میں گم ہوتے چلے گئے،مزید براں نائن الیون کے عفریت نے ہماری اُمیدوں کی فاختائوں کو نگل لیا۔ دوہزارآٹھ سے عام انتخابا ت کا آغاز ہوا، اب دوہزار تئیس کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں اگلے انتخابات ہمارا استقبال کررہے ہیں۔یہ جمہوری تسلسل اب ہمارا آخری رومان ہے۔یہ آخری رومان بھی نہ رہا تو …اس سے آگے سوچنا بھی محال ہے۔ افتخار عارف نے آغاز ہی سے اپنی شعری تخلیقات کومذہبی و تہذیبی روایات و اقدار سے یوں مزین کیا کہ اِن کے تازہ شعری مجموعے میں تہذیبی و دینی روایات کے پھولوں کی خوشبوہر سُو بکھر کر پاکیزگی کااحساس پیداکرتی چلی گئی۔ محبت اور تہذیبی شخصیت کا حامل شاعر جب ’’باغِ گلِ سرخ ‘‘ تک پہنچتا ہے تو اُس اسلوب کی تکمیل ہوجاتی ہے ،جس کی پرچھائیاں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں محسوس کی گئی تھیں۔اس تازہ مجموعہ میں دینی و تہذیبی فکر بلند مقام پر فائز ہوجاتی ہے ،دینی وتہذیبی فکر جب شعری جمالیات سے جڑتی ہے تو ایک نیا ذائقہ وجود میں آتا ہے،تہذیبی و دینی آہنگ جمالیاتی معنویت سے جڑ کر ایک نئی ’’شعری جمالیات‘‘کو تخلیق کرتا ہے ،جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔تازہ مجموعہ میں مذہبی نوعیت کا کلام ،محض مذہبی نوعیت کا حامل نہیں ،گداز شعریت کا حامل بھی ہے۔ ستر کی دہائی کی اُمیدوں کو جب اَسی کی دہائی کے خوف کی چادر اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو نوے کی دہائی میں یقینی و غیر یقینی کی کیفیت یکسر طاری رہتی ہے اور نائن الیون کا واقعہ رہی سہی اُمیدوں کو توڑ کررکھ دیتا ہے،یہ غیر معمولی تخلیق کاراگرچہ اپنے تازہ مجموعہ کو ’’باغِ گلِ سرخ‘‘کا نام دیتا ہے ،مگر اپنے دامن کو تاریخی مسائل سے بچانہیں پاتا۔ کوئی بھی شاعر اپنے عہد سے الگ ہو کر نہیں رہ سکتا،پھر افتخار عارف کا تو معاملہ بھی ا ورہے ،یہ تو کئی زمانوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہے،کئی زمانوں کے ورثے کو سنبھالنے والا شاعر اپنے عصر سے کیسے جُدا ہوسکتا ہے۔اس تازہ مجموعہ میں گذشتہ پانچ دہائیوں کی پرچھائیاں ،غزلوں اور نظموں کے مصرعوں میں محسوس کی جاسکتی ہیں،لیکن شاعر کی داخلی کیفیات نے غزلوں اور نظموں میں غنایت کے عنصر کو ایسے برقرار رکھا کہ قاری اپنے جذبات و احساسات پر نرم و گداز چوٹ محسوس کرتا ہے۔یہ چوٹ ایک ایسے درد کو جنم دیتی ہے جو سینے کے بیچوں بیچ کہیں سے پھوٹتا ہے اور ایسی کیفیات کے حوالے کردیتا ہے کہ جس کا اظہار اور بیان ممکن نہیں،بس قاری اپنے آپ کو ایک الگ تھلگ دُنیا میں پاتا ہے ،ایک ایسی دُنیا جو اُس کے لیے بالکل نئی ہوتی ہے۔فیض صاحب نے کہاتھا کہ ’’افتخار عارف کے کلام میں میر وغالب سے لے کر فرا ق ا و راشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود ہیں لیکن آپ نے ان بزرگوں سے استفادہ کیا ہے ،کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی‘‘افتخار عارف کا یہی افتخار ہے کہ یہ کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرسکتے کہ یہ تیرہ چودہ سوبرس پہلے کی ’’دانش‘‘ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے تھے اور ’’باغِ گلِ سرخ‘‘میں یہ دانش احساسات کی زبان بن کرجب مصرعوں کا رُوپ اوڑھتی ہے تو اُس تہذیبی فضا کو جنم دے ڈالتی ہے ،شاعر جس تہذیبی فضا میں ہمیشہ سے سانس لیتا چلا آرہا ہے۔افتخار عارف کا تازہ شعری مجموعہ ایک شاعر کا محض شعری مجموعہ نہیں ،بلکہ یہ کتاب دینی و تہذیبی روایات کی جمالیاتی دستاویز اور ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس شعری مجموعے کو اسی تناظر میں دیکھاجاناچا ہیے۔