سابق وزیر داخلہ چوھدری نثار احمد نے پونے تین سال بعد پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے2018کے انتخابات میں بطور آزاد امیدوار راولپنڈی کے حلقہ پی پی 10 سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ مجموعی طور چار حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا لیکن ایک کے علاوہ تمام نشستیں تحریک انصاف سے ہار گئے۔ غصہ تھا یا اپنی قسمت سے شاکی، چوہدری صاحب نے صوبائی اسمبلی کی رکنیت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حلف نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ فوری طور پر اپنی نشست سے دست بردار ہو جاتے لیکن انہوں نے نشست اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ صوبائی اسمبلی اور نہ ہی الیکشن کمیشن پنجاب نے اس دوران حلقے کی عدم نمائندگی کی بنا پر چوہدری صاحب کو سخت نتائج سے متنبہ کیا۔ اگر کبھی کوئی سرزنش کی بھی گئی تو ایسے کہ خفگی کا احساس بھی نہ ہو اور بھرم بھی رہ جائے۔ شائد چوہدری نثار کو اندازہ تھا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور ہیں، اس لیے انہوں نے بھی اپنے اس غیر پیشہ وارانہ رویے پر خفت کے بجائے ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے حکمرانوں کا خمیر انا اورذاتی مفاد کی مٹی سے بنا ہے۔ کسی حد تک یہ بات ہماری قوم پر بھی صادق آتی ہے۔ ہم دن رات سسٹم کے کرپٹ ہونے کا رونا روتے ہیں۔ میرٹ کے قتل ہونے پر ماتم کناں رہتے ہیں۔ اسی طرح اداروں اور اشرافیہ کے مابین گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی ملکی تنزلی پر ہم ہر وقت پریشان اور دل برداشتہ رہتے ہیں لیکن اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے ہم اپنی اپنی حیثیت میں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ہم حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا سسٹم بنا دے کہ پاکستان ایک مہذب ملک بن جائے۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ ہم حکومت کو مغرب کے نقش قدم پر چلتا تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود مغرب میں رائج شہری اخلاقیات اور تمدن اپنانے کو تیار نہیں۔ ہم سب سسٹم کو درست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کی تنظیم نو میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ چوہدری نثار کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم چوہدری نثار کی اپنے حلقے سے بے وفائی کا تذکرہ کریں پہلے ایک واقعہ کی طرف چلتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ کس طرح ہر سطح پر سول سوسائٹی سٹیٹیس کو کی آبیاری میں مصروف ہے۔ پچھلے دنوں سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ لائیو سٹاک اور فشریز میں بی پی ایس01 سے بی پی ایس 04 کی 16 اسامیوں پر بھرتی کے لیے اشتہار جاری کیا گیا۔ تمام اسامیوں میں سے صرف سویپر کی اسامی تھی جس میں مذہب کی قید رکھی گئی۔ یعنی اس اسامی پر صرف غیر مسلم ہی درخواست بھیج سکتے تھے۔ یہ ایک انتہائی مکروہ اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ حالانکہ حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس قسم کے منفی رویوں کے سد باب کے لیے بہت کام کیا ہے۔ سندھ حکومت نے تو اس ضمن میں قوانین بھی مرتب کیے ہیں لیکن کسی نہ کسی سطح پر شائد عادتا ایسی غیر انسانی حرکت سر زد ہو جاتی ہے۔ ایک رویہ تو یہ ہے کہ حکومت سندھ کو اقلیتوں کے ساتھ اس غیر مساوی رویے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پر ہوا بھی۔ ایک دوسرا رویہ بھی تھا، جسے خود اصلاحی کا رویہ کہا جاتا ہے۔ یہ اشتہار کئی مقامات سے ہو کر چھپا ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اشتہار بنانے والا ادارہ، اسے بھیجنے والی ایجنسی و دیگر فریق اس غیر انسانی شق کی مذمت کرتے ہوئے اس کیخلاف آواز اٹھاتے اور اگر حکومت اسے درست کرنے سے انکار کرتی تو ایسے اشتہار بنانے یا چھاپنے ہی سے انکار کر دیا جاتا۔ جب تک سول سوسائٹی میں اس قسم کا ضمیر یا خود احتسابی کا خمیر نہیں پیدا ہوگا پاکستان صرف حکومتی کوشش سے مہذب نہیں بن سکتا۔ سول سوسائٹی کو معاشرے کا کان ، آنکھیں اور دل کہا جاتا ہے۔یہ لوگ غلطی ہونے سے پہلے اس کی نشاندہی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں سول سوسائٹی صرف کسی بڑے معرکے ہی میں میدان میں اترتی ہے۔ پھر لوگ انہیں موم بتی مافیا کہیں تو برا مان جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ کہنا غلط ہے۔ سول سوسائٹی کو سوچنا ہو گا کہ اس نہج پر بات کیوں پہنچی ہے۔ اب آئیے چوہدری نثار کی طرف۔ موصوف کہتے ہیں کہ انہیں پونے تین سال بعد حلف اٹھانے کا خیال اس لیے آیا کیونکہ ان کے حلقے کے لوگ نہیں چاہتے کہ حکومت کے نئے قانون کے تحت اسمبلی سے طویل مدت تک غیر حاضر ارکان کی نمائیندگی کو مسترد کر دیا جائے۔ اندازہ لگائیے کہ کیسے ہمارے نمائندے اپنے ووٹرز کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارلیمانی نظام حکومت میں حلقے کی سیاست ہی دراصل کامیابی کا پہلا اور آخری زینہ ہے، پونے تین سال یہ اسمبلی سے غائب رہے۔ ایسے لوگ نہ تو اچھے سیاست دان بن سکے، نہ اچھے شہری اور نہ ہی سول سوسائٹی کا اچھا کارکن۔ انہیں کوئی بتائے کہ اسمبلی کی رکنیت کا مطلب تنخواہ لینا نہیں کیونکہ انہوں نے اسے لینے سے انکار کیا ہے۔ اسمبلی کی رکنیت کا مطلب ہے نمائندگی، اپنے حلقے کی نوکری، اپنے لوگوں کے حقوق کی نگہداشت۔ لیکن انا اور مفاد پرستی کے خمیر سے گندھے ہمارے لیڈروں میں کہاںاتنی اخلاقی جرات کہ وہ جمہوریت کے فلسفے کو سمجھ سکیں۔ اس تمام معاملے میں چوہدری نثار کے علاوہ پی پی 10 کے لوگ بھی برابر کے قصور وارہیں جنہوں نے اپنی عدم نمانئدگی کے خلاف آواز اٹھائی اور نہ ہی چوہدری نثار سے اپنے ووٹ کی عزت کا مطالبہ کیا۔