قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ نے متعدد بااثر سیاستدانوں اور افسروں کے خلاف تحقیقات کی منظوری دی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈارسابق پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعظم فواد حسن فواد‘ اور سابق وزیر مملکت انوشہ رحمان نمایاں ہیں۔ ان تمام بااثر شخصیات پر اختیارات کے ناجائز استعمال‘ بدعنوانی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات ہیں۔بدعنوانوں اور قومی خزانے کو ذاتی استعمال میں لانے والوں کے خلاف نیب نے مزید منصوبہ بندی کی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نیب نے دوبئی میں بڑے بڑے اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دوبئی میں پاکستانی شہریوں کے 1کھرب روپے سے زائد کے اثاثے ہیں۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے 2013ء میں 480ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی قواعد و ضوابط کے برعکس کرنے والے حکومتی عہدیداروں اور افسران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ پاکستان جیسے زرخیز ملک اور یہاں کے محنتی عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان پر ایسے لوگ حکمران بن کر مسلط رہے ہیں جو دیانت داری اور ایمانداری کی صفات سے عاری تھے۔ ستر اور اسی کے عشرے تک سیاست میں دلچسپی رکھنے کی وجہ ملک کے حالات میں بہتری لانا اور پوری قوم کو ترقی کے عمل میں شامل کرنا ہوا کرتی تھی۔1980ء کے عشرے نے سیاست اور سیاستدانوں کو کئی طرح سے آلودہ کیا۔ ملک میں جمہوری عمل پابندیوںکا شکار تھا۔ اس وقت کے حکمرانوں نے اپنے حامیوں کی صورت میں نئے لوگوں کو سیاسی کارکن بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ لوگ سیاسی نظریات‘ عوام اور ریاست کے تعلقات‘ آئین و ریاستی اداروں کے کردار اور سیاسی اقدار کے بارے میں بے خبر تھے۔ سیاسی شعور سے متعلق امور میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بہت سے صنعت کار اور زمیندار خاندانوں کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی کاروباری اور معاشی ضروریات ناجائز طور پر سرکاری خزانے سے پوری کی گئیں۔ پلاٹوں کی الاٹمنٹ‘ تعمیراتی ٹھیکے‘ درآمد برآمد کے لائسنس اور نئی فیکٹریاں لگانے کے لیے برائے نام شرائط پر بھاری قرضے دے کر سیاسی حامیوں کی پوری ایک کھیپ تیار کی گئی۔ اس دور کا نمائندہ خاندان میاں نواز شریف کا ہے۔ باقی لوگ ان کے ساتھی بن کر کام نکالتے رہے۔ بے نظیر بھٹو 1986ء میں وطن واپس آئیں۔1988ء کے انتخابات میں انہیں مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ اگرچہ ان کی جماعت میں سیاسی کارکنوں کی خاصی تعداد موجود تھی لیکن پورے ملک میں سیاسی حامیوں کو مالی مفادات کی ڈور میں باندھنے کا جو رواج چل نکلا تھا اس نے پیپلز پارٹی کو بھی متاثر کیا۔ بے نظیر بھٹو دور میاں نواز شریف کی حکومتوں کی ہر بار برطرفی میں بدعنوانی ایک بڑا الزام رہی۔ ملک میں احتساب اور جوابدہی کا کوئی جمہوری انتظام کر دیا جاتا تو شائد بدعنوانی کو نشو و نما پانے سے روکا جا سکتا تھا۔ 2006ء میں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو ساتھ اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں جماعتیں اقتدار ملنے کی صورت میں ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات نہیں درج کرائیں گی۔ میثاق جمہوریت سے پہلے ہی پاکستان میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کے بنائے گئے احتساب سیل کو بہتر شکل دے کر قومی احتساب بیورو بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا خیال تھا کہ احتساب بیورو ان کے ساتھیوں کو خوفزدہ کرنے کا کام کر رہا ہے۔2008ء میں پی پی پی حکومت بنی ۔بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز کے کئی معاملات سامنے آئے لیکن نیب کو کارروائی سے روک دیا گیا۔2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی۔ اس زمانے میں نیب کا چیئرمین ایسے شخص کو لگایا گیا جس نے اپنی پوری مدت کے دوران کسی طاقت ور کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی نہ کی۔ بلکہ پلی بارگین کا بدنام زمانہ طریقہ استعمال کر کے ملکی دولت لوٹنے والوں کو بچایا۔ جب حکومتیں کسی برائی اور خرابی کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں تو عوام میں اپنے حکمرانوں سے بیزاری کا ایک ردعمل پیدا ہونے لگتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی اس عوامی ردعمل کا درست اندازہ نہ لگا سکیں۔ عمران خان کی صورت میں ایک سیاسی رہنما عوام کو مسلسل یہ باور کرا رہا تھا کہ ان کے مسائل کی وجہ بدعنوانی ہے۔ وہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے واقعات بیان کرتا رہا۔ یوں 2018ء کے آتے آتے پاکستان کے سماج میں بدعنوانی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھ لیا گیا۔ حالیہ انتخابات میں ووٹ دینے کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ کون بدعنوان ہے اور کون ایسا ہے جس پر عوام ابھی تک بھروسہ کرتے ہیں۔ یوں سیاسی جماعتیں عوام کی جن خواہشات کو حقیر جان کر نظر انداز کرتی رہی ہیں عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے انہیں ترجیحات قرار دیدیا ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنا منصب سنبھالتے ہی التوا میں پڑے اہم مقدمات پر تحقیقات شروع کرانے کا فیصلہ کیا۔ بلا شبہ یہ ان کی اعلیٰ کارکردگی کی مثال ہے کہ نیب نے عدالت عظمیٰ کی ہدایات کا احترام کرتے ہوئے میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں محنت سے کام کیا۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے جن شخصیات کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے ان پر سنگین الزامات ہیں۔ ان تمام لوگوں کو پاکستان نے عزت دی‘ اختیار دیا مگر جواب میں یہ ملک کے لیے کچھ اچھا نہ کر سکے۔ ان کی بری کارکردگی اور بدانتظامی نے قوم کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔فواد حسن فواد پنجاب اور مرکز میں نہائت با اختیار حیثیت کے مالک رہے ہیں۔ ان پر آشیانہ ہائوسنگ سکیم سمیت بہت سے منصوبوں میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔ اسی طرح 2013ء میں جب میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو اسحاق ڈار نے گردشی قرضوں سے نجات کے لیے ایک خصوصی پیکیج کا اعلان کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پیکیج کے تحت زیادہ تر ادائیگیاں نواز شریف کے ایک دوست کے انرجی یونٹ کوکی گئیں۔ کئی ایسے انرجی یونٹس کو بھی بھاری رقوم ادا کی گئیں جو بجلی پیدا ہی نہیں کر رہے تھے اس غیر منصفانہ طریقہ کار پر دیگر انرجی یونٹس مالکان نے احتجاج کیا لیکن اس وقت کی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی۔ نیب کی طرف سے بدعنوانی کی ذیل میں آنے والی سرگرمیوں کے خلاف حالیہ کوششیں احتساب کے عمل پر سماج کے یقین کی ایک شکل ہیں۔ ہمارا معاشرہ بدل رہا ہے۔ سماج کا رویہ ایسی جمہوریت اور اداروں کو مسترد کر رہا ہے جو جوابدہی پر یقین نہیں رکھتے۔ امیدہے کہ لوٹ مار کرنے والے نئی صبح کے طلوع ہوتے ہی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔