گزشتہ برس نومبر میں بابری مسجد بارے سپریم کورٹ کا حسب توقع فیصلہ آیاجس میںمسجد کی متنازعہ زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ بابری مسجد کی زمین مرکز کے پاس رہے گی۔ مسلمانوں کو ایودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ متباد ل جگہ دی جائے۔ اس فیصلے کو مسلمانوں ہی نہیںبلکہ اعتدال پسند ہندوؤں نے بھی دل سے قبول نہیں کیا۔ بھارت کی دوسری اقلیتوں نے بھی اس پر بہت نکتہ چینی کی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا کہنا تھا کہ پانچ رکنی بینچ کا بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔بنچ میں ایک مسلمان جج جسٹس ایس عبدالنظیر بھی شامل تھے۔عدالت کا کہنا تھا کہ عقیدے کی بنیاد پر حق ملکیت طے نہیں ہو گی۔ بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی۔ مسجد کے نیچے غیر اسلامی عمارتی ڈھانچہ موجود تھا۔ مسلمانوں نے کبھی بھی بابری مسجد پر قبضہ نہیں کھویا۔ واضح نہیں کہ مندر کو منہدم کیا گیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 1856تک بابری مسجد کی جگہ پر باقاعدگی سے ادائیگی نماز کے ثبوت نہیں۔لہذا عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہندئوں کو بابری مسجد کی 2.77ایکڑ اراضی دی جائے۔ بھارتی حکومت کی نگرانی میں مسجد کی جگہ مندر بنے گا۔ کیا سپریم کورٹ نے بابری مسجد بارے ناقابل تردید حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھا یا جان بوجھ کر ان کو جھٹلایا۔ کیا کسی نے عدالت کو نہیں بتایا کہ یہاں کئی صدیوں تک اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور یہاں باقاعدہ نماز ادا کی جاتی رہی۔ مسلمان مغلوں کا دور گزرا، انگریز حکمران ہوئے، اس کے بعد بھارت ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا مگر ان سب کے باوجود بابری مسجد کے مینار کھڑے رہے کسی کو اس پر قبضہ کرنے یا اسے مسمار کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔ گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے زیرقیادت سیکولر بھارت اپنے تمام شہریوں سے یکساں سلوک روا رکھنے کا دعوے دار تھا۔کیا سپریم کورٹ بھول گئی کہ بھارت کے آئین میں مذہب، رنگ اور نسل سے اوپر اٹھ کر تمام بھارتیوں کو یکساں تحفظ حمایت دی گئی تھی۔ ان کے بنیادی حقوق یکساں تھے، ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت سرکار کی اولین ذمہ داری تھی، لیکن ہندتوا کے نعرے لگانے اور بھارت کو ہندوانے کے جنون میں مبتلا عناصر گزشتہ تین عشروں سے سیکولر اقدار کو زمین بوس کرنے کے لئے شدت سے سرگرم ہیں۔ بھارتی عدالت عالیہ کے فیصلے سے ایک بار پھر عظیم قائد محمد علی جناحؒ کا ہندو شدت پسندی کے بارے میں نظریہ درست ثابت ہوگیا۔ اب تو ہندوستان کی تمام اقلیتوں کو ایک بار پھر احساس ہو جانا چاہئے کہ ہندوتوا کے بارے میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کا نظریہ بالکل ٹھیک تھا اور یقینی طور پر بھارت میں موجود اقلیتوں کو اب ہندستان کا حصہ بننے پر افسوس ہو رہا ہوگا۔بھارتی سپریم کورٹ بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔ فیصلے سے بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کا چہرہ بے نقاب ہوا۔ فیصلے سے ظاہر ہوا ہے بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کو اپنے عقائد اور عبادت گاہوں پر تشویش ہو گئی۔ بھارت میں ہندوتوا نظریہ دیگر اداروں کو متاثر کر رہا ہے اور ہندو انتہا پسندانہ سوچ خطے میں امن کیلئے خطرہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہندوقوم کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں رہی کیونکہ شیطانیت انکی فطرت میں شامل ہے اور یہی چیز انہیں مسلمانوں کے خلاف تعصب پر اکساتی رہتی ہے۔ اس لیے انہیں جب بھی موقع ملتاہے اس تعصب اورنفرت کا اظہار کرتے ہیں۔اسی نفرت کے پیش نظر 6 دسمبر 1992 کو انتہا پسند ہندوؤں نے قوم پرست ہندو تنظیموں کے اکسانے پربابری مسجد کو شہید کرکے عارضی طورپر ایک مندر بنادیا تھا۔ جس کے بعدسارے ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ مارے جانے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ مسجد کی شہادت یقینی طورپر دنیا بھرکے مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز اقدام تھا اس لیے پوری دنیا میں مسلمان ہندوئوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ حکومت وقت نے مسجد کی شہادت کے وقت فوج اورپولیس کومشتعل ہندوئوں کے کیخلاف مسجد کو شہید ہونے سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ وہی حکومت مسجد کی شہاد ت کے بعد مسلمانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرتی رہی اور اندرون خانہ ہندو انتہا پسندوں کی سپورٹ کرتی رہی۔ بعد میں بھارت کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے بابری مسجد پراپنی سیاست چمکائی لیکن کسی میں اس مسجد کو تعمیر کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے واقعے کی تحقیقات کا وقت آیا تودوران تحقیقات یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کی شہادت میں اس وقت کی حکومت کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ ایل کے ایڈوانی منوہر جوشی اورکاٹھیا کومسجد کی شہادت کے منصوبے میں براہ راست ملوث پایا گیا۔مرلی منوہر جوشی اورایڈوانی نے اپنی نگرانی میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اورمسجد کی شہادت کے وقت یہ دونوںلیڈر مسجد کے سامنے واقع ’’رام کتھا کنج‘‘ کی عمارت میں موجود تھے جوبابری مسجد سے صرف دوسومیٹر دورتھا۔ اس رپورٹ نے جہاں ہندوئوں کے سکیولر ازم اورلبرل ازم پر سے پردہ اٹھایا وہاں بھارتی لیڈروں کا اصل چہرہ بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا ۔بابری مسجد کی شہادت کے الزام میں ایل کے ایڈوانی اعترافی بیان بھی دے چکے ہیں لیکن بھارتی ایوان انصاف کوان کے اندرموجود مجرم دکھائی نہیں دے رہا اس لیے وہ اب تک آزاد پھر رہے ہیں۔سب سے بڑا ستم تو یہ ہوا کہ موجودہ 30 ستمبر کو بھارتی عدالت نے بابری مسجد کے قاتلوں کو باعزت بری کر دیا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کاکہنا ہے کہ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں اور ہم زمین کے لیے نہیں بلکہ مسجد کے لیے لڑرہے ہیں۔ اگر بابری مسجد غیر قانونی ہے تو پھر ایل کے ایڈوانی اور دیگر کا اس سلسلے میں کیوں ٹرائل کیا جارہا تھا اور اگر بابری مسجد قانونی تھی تو پھر اس کی زمین کو کیوں ان کے حوالے کیا گیا جنہوں نے اس کو گرایا؟ ۔