کارنامے انجام دینے کی بجائے یہ باتیں بنانے والے لوگ ہیں‘ مقبولیت کی بھیک مانگنے والے۔سب کے لیے نہیں، ان ہی کے لیے اقبالؔ نے کہا تھا: کوئی مانے یا نہ مانے میرو سلطاں سب گدا زندگی میں خوش قسمتی اور بدقسمتی نام کی کوئی چیز نہیں، بس مواقع ہوتے ہیں۔ کوئی چاہے تو ان سے فیض یاب ہو۔ بہترین طور پر برت لے۔کوئی چاہے تو لمبی تان کر سویا رہے۔وہ جو میرؔ صاحب نے کہا تھا: میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی مشاہدہ یہ ہے اور تاریخ کا سبق بھی یہی کہ عظیم ترین فاتح، حکمران‘ معلّمین اخلاق‘ فلسفی اور جلیل القدر اولیا بدترین حالات میں ابھرے۔ مشکلات و مصائب سے دوچار ہوئے تو عزم سلامت رکھا۔ حتیٰ کہ ابتلا میں خوف و اندیشہ سے گزر کر کامیابی کی شاہراہ پہ جا اترے۔ شیکسپئر نے کہا تھا: ایک لہر اٹھتی ہے‘ آدمی اس پہ سوار ہو جائے تو منزل مراد کو جا لیتا ہے۔اقبالؔ نے کہا: عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے امیر تیمور کو عظیم ترین فاتح کہا جاتا ہے۔ مگر یہی وہ تیمور تھا،ایک دن ایک صحرا میں بے یارو مدد گار پڑا تھا۔ ایک قبائلی سردار کے ویران زنداں خانے میں۔ برادر نسبتی حسین کے سوا کوئی رفیق و دمساز نہ تھا۔ ایک لقمے اور پانی کے گھونٹ کا انحصار بھی صیاد پر تھا۔ حسین نے حیرت سے دیکھا کہ غم و اندوہ اور اندیشوں سے بے نیاز تیمور کسی خواب میں گم ہے۔ اس کے چہرے پر امید‘ امکان اور روشنی کے سائے تھے۔ اچانک حسین کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:سلطنت جب تشکیل پا جائے گی تو فلاں علاقے کا گورنر میں تمہیں مقرر کروں گا۔ بھنا کر دل شکستہ حسین نے کہا: یہاں جان کے لالے پڑے ہیں اور تمہیں سلطنت کی سوجھتی ہے۔ تیمور نے کہا: ہر آدمی کی ایک تقدیر ہوتی ہے‘ جو اس کے مزاج اور صلاحیتوں میں ڈھلتی ہے۔ صحرا ہی میں مار ڈالنا تھا تو قیادت کی استعداد اور جنگ جوئی کی ایسی امنگ مجھے کیوں بخشی؟ ظہیر الدین بابر کو بادشاہوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے‘ تاریخ میں شاید واحد واقعہ ہے کہ فقط بارہ ہزار سپاہ کے ساتھ کسی نے زمین کے اتنے بڑے خطے پر حکومت کی ہو۔ ایک سلطنت کی بنیاد رکھی ہو اور یہ سلطنت سوا دو سو سال قائم رہی۔ دراں حالیکہ اس کے وارثوں میں ایک سے ایک بڑا نالائق تھا‘ عیش کوش اور فرار کی ذہنیت رکھنے والا۔ وہ بابر کی طرح سخت جان‘ صداقت شعار اور اپنے ساتھیوں کے باب میں عالی ظرف اور وفاکیش نہ تھے۔ اس کے باوجود یہ سلطنت اس لئے قائم رہی کہ کارسرکار کے جو انداز اور قرینے بابر نے وضع کئے تھے وہ لوہے کے ایک جال کی طرح مضبوط تھے، پائیدار عمارت جس پر استوار کی جا سکی۔ بابر ملکوں ملکوں پھرا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں، ترک‘ تاجک ‘ ہزارہ اور افغان قبائل کے علاوہ برصغیر کی بوقلمونی پر اس کی نظر تھی۔ عہد گزشتہ کے فاتحین پر غور کیا تھا۔اپنی اولاد کو اس نے رواداری کا سبق پڑھایا اور راسخ کر دیا۔ نظم و نسق‘امن و امان اور ترقی کے اعتبار سے شیر شاہ سوری ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ برصغیر کی تاریخ کا شاید واحد حکمران‘ اس سڑک کی تعمیر کے علاوہ جو بعد میں جی ٹی روڈ کہلائی‘ بہت سے منصوبوں پر اس نے کام کیا‘ آئندہ نسلوں نے جن سے فیض پایا۔ تین چار ہزار کلو میٹر لمبی سڑک پر برگد کے لاکھوں درخت لگوائے، جن میں سے ہزاروں اب بھی باقی ہیں۔ ہر بیس پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چوکی بنوائی‘ کئی کمرے اور ایک بائولی، وہ کنواں سیڑھیاں اتر کر جس میں سے پانی لایا جاتا ہے۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ ہزاروں چوکیوں کی تعمیر کے لئے سلیقہ مندی سے لاکھوں افراد کا بندوبست کیسے ہوا۔ بندوبست اراضی کی بنیاد اس نے رکھی۔ وہ تمام اصطلاحیں‘ کھیوٹ ‘ خسرہ‘ اور موضع اسی کے زمانے کی وضع کردہ ہیں۔ پٹواری‘ قانون گو اور تحصیلدار کا تصور اسی زمانے میں ابھرا، تکمیل اگرچہ اکبر اعظم کے زمانے میں ہوئی، مگر اسی ٹوڈرمل نے کی‘ شیر شاہ نے جسے تلاش کیا تھا۔ ڈاک کا ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ پانچ برس کے اقتدار میں پوٹھوہار سے بنگال تک کتنے ہی عظیم الشان قلعے اس نے تعمیر کئے۔ ایسا ایک قلعہ اگر نواز شریف‘ زرداری اور عمران خان کو بنانا پڑے تو پانچ برس شاید منصوبہ بندی میں ہی بیت جائیں۔ وہ مردم شناس تھے۔ دنوں کی روشنی اور راتوں کی سیاہی میں پیہم ان کی رفاقت میں دماغ سوزی کیا کرتے۔ اس کے باوجود کہ وہ بادشاہ تھے۔ منتخب حکمران نہیں‘ عمران خاں کی طرح اپنے ساتھیوں کو وہ لیکچر نہ دیا کرتے۔ اپنی عظمت اور بزرگی کا احساس دلانے میں لگے نہ رہتے۔ شیر شاہ کی بات ادھوری رہ گئی۔ ایک دن وہ بھی تھا جب گھوڑے پر سوار سہسرام میں اپنے گھر سے وہ تنہا نکلا۔ اس لئے کہ سوتیلی ماں نے زندگی عذاب کر رکھی تھی۔ نوجوان منتظم کی وہ حاسد تھی، جس کی نگرانی میں جاگیر کی زرعی پیداوار بڑھتی گئی۔ تن تنہا وہ پہنچا اور مغل فوج کا حصہ ہو گیا‘ یہیں اس نے دریافت کیا کہ فنونِ سپاہ گری میں بابر کے سالار اس سے افضل نہیں۔ حتیٰ کہ دربار میں اعتبار پایا۔ یہاں تک کہ بابر کے دسترخوان تک پہنچا۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں ایک جو کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوتے۔ بابر اس کا بادشاہ ضرور تھا مگر ذہنی طور پر شیر شاہ اس سے مغلوب ہرگز نہ تھا۔ شاید اسی لئے لاشعوری طور پر آداب شاہی بھول گیا۔ اور پہلو سے خنجر نکال کر گوشت کاٹا ۔ یکسو اور شہ دماغ ایسا کہ بابر کی نگاہ میں ناراضی و برہمی دیکھی تو جان لیا کہ مغلوں کے ساتھ یہ اس کا آخری دن ہے، اب وہ معتوب ۔ ہاتھ دھونے کے بہانے وہ اٹھا اور آخری بار بابر نے اس کے گھوڑے کی ٹاپ سنی۔ اپنی کتاب میں بعدازاں بادشاہ نے کسی قدر مرعوبیت سے لکھا کہ آئے دن شیر شاہ پریشانی پیداکرتا ہے۔ ان دو آدمیوں کا بابر کچھ نہ بگاڑ سکا‘ جن کا نام ’’ش‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ ممکن ہے علم الاسماء کا کوئی نکتہ اس میں پوشیدہ ہو۔ علم کے کتنے دیار روشن ہیں اور کتنے ہیں جنہیں ابھی روشن ہونا ہے۔ جنگلوں میں شیر شاہ مارا مارا پھرا لیکن آخر کار بابر کے جہاندیدہ و ذہین فرزند ہمایوں کو ہندوستان سے نکال دیا۔ اگلے پانچ برس اس طرح حکمرانی کی کہ تاریخ کے فلک پر دائم ثریاستارے کی طرح چمکتا رہے گا۔ پھرمغل لوٹ آئے اور محض اس لئے نہیں کہ شیر شاہ کی اولاد نالائق تھی‘ محض اس لئے بھی نہیں کہ مغلوں کے بہت سے وفادار بروئے کار تھے‘ اس لئے بھی کہ نظم و نسق کے باب میں بابر کی اولاد زیادہ روادار تھی‘ سینکڑوں زبانوں‘ قبیلوں ‘ ثقافتوں اور مذہبی عقائد میں بٹے برصغیر کے لئے وہ زیادہ قابل قبول تھے۔ مثبت یا منفی اہل عزم تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑ گئے‘ جن سے سیکھا جا سکتا ہے۔ دھن کے پکے اور اپنی ترجیحات میں غیر متزلزل ۔ ایسے ہی ان کے رفیق اور ہم نفس بھی تھے۔ اب ہمارے لئے فیاض الحسن چوہان اور مرتضیٰ وہاب رہ گئے‘ اس لئے کہ زرداری، نواز شریف اور عمران خان ہیں۔دو دن ہی گزرے ہیں کہ کراچی سمجھوتے پر دونوں طرف سے بے معنی دعوئوں کی یلغار ہے۔ کارنامے انجام دینے کی بجائے یہ باتیں بنانے والے لوگ ہیں‘ مقبولیت کی بھیک مانگنے والے۔سب کے لیے نہیں، ان ہی کے لیے اقبالؔ نے کہا تھا: کوئی مانے یا نہ مانے میرو سلطاں سب گدا