یکم جنوری 2019ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کے تبادلے کے مطابق پاکستان میں 537 بھارتی اور بھارت کی جیلوں میں 356 پاکستانی قید ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بیرون ملک قید پاکستانیوں کے بارے میں نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت نے امریکہ، یورپ سمیت دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو معمولی جرائم میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن مدد کی ہدایات بھی جاری کر رکھی ہیں۔ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر بھی وزیراعظم نے ان سے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کو رہا کرنے کی ہاتھ جوڑ کر اپیل کی توسعودی عرب نے 21 سو سے زائد قیدی رہا کردیئے تھے۔ اسی طرح وزیراعظم نے بھارتی پائلٹ کو غیر مشروط طور پر خیرسگالی کے جذبہ کے تحت رہا کرنے کا اعلان کیا تو بھارت نے بھی جواب میں بھارتی جیل میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے شاکراللہ کی لاش پاکستان کے حوالے کردی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان معمولی جرائم میں پکڑے گئے دونوں ممالک میں قید افراد کے تبادلے کے لیے سفارتی کوششیں کرے تو کامیابی کے امکان موجود ہیں۔ ماضی میں بھارتی وفد اس حوالے سے پاکستانی جیلوں کا دورہ کر چکا ہے۔ بہتر ہوگا وزیراعظم اپنے بھارتی ہم منصب کو ایک دوسرے کی جیلوں میںمعمولی جرائم کی بنا کر قید افراد کے تبادلے کی پیشکش کریں تاکہ بھارت میں قید پاکستانیوں کی رہائی کی کوئی راہ نکل سکے۔