حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی ووڈ فلم دی کشمیر فائلز نے 1990 کی دہائی میں وادی کشمیر سے پنڈتوں کی نقل مکانی کی بھولی بسری کہانی کو نہ صرف تازہ کردیا بلکہ پرانے زخم بھی ہرے کردیئے۔ بتایا جاتا ہے کہ کشمیر فائلز اب تک بھارت میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں سے ایک ہے۔ 170 منٹ کی یہ فلم بالی ووڈ کی ان فلموں کی سیریز کا حصہ ہے جن میں ہندوؤںکو مسلم حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے دکھایاجاتاہے اور ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو مبالغہ آرائی سے بیان کیا جاتاہے۔ سرکاری طور پر بھارت میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے شہریوں کو کشمیر فائلز فلم دیکھنے کی طرف راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔رعایتی ٹکٹ دیئے گئے اور بعض مقامات پر سپانسر شپ بھی فراہم کی گئی۔ کشمیر فائلز نے بھار ت کے طول وعرض میں کشمیری مسلمان کمیونٹی کے خلاف غم و غصے کی تازہ دم لہر اٹھی اور ہندووں پر ظلم کرنے والے ایک گروہ کے طور پر دکھایاگیا۔ دائیں بازو کے انتہاپسند گروہوں اور افراد نے سوشل میڈیا پر #WakeUpHindu جیسے ہیش ٹیگ استعمال کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق فلم دیکھنے کے بعد بہت سے لوگوں نے کشمیری مسلمانوں سے بدلہ لینے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔یاد رہے کہ کشمیری مسلم کمیونٹی پہلے ہی بھارت کے شہروں میں سخت عتاب کا سامنا کر رہی ہے۔ اس فلم کے ذریعے بھارتی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں اور کشمیریوں کے ساتھ گزشتہ کئی عشروں سے رکھی گئی بدسلوکی کا عوامی سطح پرجہاں جواز فراہم کیاگیا، وہاں اس پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے عوامی حمایت بھی حاصل کی گئی۔ ٹائم میگزین میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں اس فلم کے مقاصد کا خلاصہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین لکھتا ہے: کشمیر فائلز کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے خلاف جنہیں مودی کے پیروکار ہندو مخالف قرار دیتے ہیں۔ آزاد خیال دانشور اور کارکن، جن کا بھار تی جمہوریت پر یقین ہے۔ اور ہندو قوم پرستی کے بالادستی کے اصولوں پر یقین نہیں کرتے۔ اور لبرل میڈیا کے خلاف جسے ہندوانتہاپسند بکاؤ شدہ ''پرسٹیٹیوٹ'' کہتے ہیں۔ان سب کے خلاف نفرت کو ہوا دینا ہے۔ 1990 کی دہائی کے المناک واقعات جن کی بدولت پنڈتوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑاکے بارے میں متضاد نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔اس موضوع پربے گھر ہونے والے پنڈت قلمکاروں کے ساتھ ساتھ غیرملکی مصنفین نے بھی کافی ریسرچ کے بعد لڑیچر تیار کیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پنڈت برادری کی مقبوضہ کشمیر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی تاریخ کا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔ پنڈت لیڈروں، کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ جہاں بھی ملنے کا موقع ملا انہیں اپنی مٹی، قدیم ثقافت، تاریخی مقامات اور کشمیری شناخت سے محبت کرنے والا پایا۔ پنڈت اپنی کہانی بڑی کامیابی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔دنیا نے انہیں سنا اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔اس کے برعکس 1990 کی دہائی کے اوائل میں ریاستی جبر سے بچنے کے لیے کنٹرول لائن عبور کرنے والے مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد مظفرآباد کے نواحی علاقوں میں واقع مہاجر کیمپ میں آباد ہے۔ان مہاجرین پر کسی نے کوئی فلم بنائی اور نہ ان کی داستان لکھی گئی۔ آخر کیوں؟ پاکستان کے ایک سو سے زیادہ ٹی وی چینلز کو کبھی بھی یہ مہاجرین یادنہیں آئے۔ بھارتی حکام نے کشمیری پنڈتوںکی واپسی کے لیے کوئی قابل عمل حل تلاش کرنے کے بجائے انہیں نفرت کو ہوا دینے اورمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ آزادی کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی پنڈت تنظیمیں قائم کی گئیں جیسے پننن کشمیر۔ ان تنظیموںنے وادی کشمیر کے اندر ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ پننن کشمیر کے علاوہ، پنڈتوںکی نسل کشی کا پروپیگنڈا کرنے کے لیے بھی کئی ایک تنظیمیں ملک کے اندر اور باہر کھڑی کی گئی جنہیں بھارتی اداروں کی سرپرستی حاصل رہی۔ ان گروہوں نے کشمیری پنڈتوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جو سخت گیر ہندتو ا کا نظریہ رکھتی ہے۔عالم یہ ہے کہ پڑھے لکھے کشمیری مسلمان اور پنڈت کسی بھی ایشو پر ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے مل جل کر رہنا تو دور کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی تھیٹروں میں ریلیز ہونے والی کشمیر فائلز نے ایک چھوٹی اقلیتی برادری کو اکثریتی آبادی کے خلاف کھڑا کر دیا ،جس سے ان کی گھر واپسی مزید مشکل ہوگئی۔دونوں گروہوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت کی دیوار اور اونچی ہوگئی۔ کشمیری پنڈت بھی اپنے گھروں کو واپس جا سکتے ہیں اگر مقامی کمیونٹی انہیں ہمسایہ اور ساتھی شہری کے طور پر قبول کرے۔پنڈتوں کی پریشانیوں کا پرامن اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے کشمیری مسلمانوں اور پنڈت رہنماؤں کے درمیان بات چیت ناگزیر ہے۔انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے اقدامات کیے جانے چاہییں تھے نہ کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے کئی داخلی مسائل بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت سے بھی جڑے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی نئی شروعات کرنے کا ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ مذاکرات کا سلسلہ 2016 میں جہاں ٹوٹا تھا یعنی بھارت نے یکطرفہ طور پر پاکستان کے ساتھ تمام رسمی سفارتی تعلقات کو معطل کر دیا تھاوہاں سے ہی دوبارہ شروع کیا جاسکتاہے۔پانچ اگست 2019ء کے اقدامات کو واپس لینے کے لیے بھی مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوسکتاہے۔