امریکی جریدے فارن پالیسی نے لکھا ہے کہ بھارت کی طرف سے جموں میں ہندوئوں کو آباد کر نے سے کشمیری مسلمانوں کے ووٹ کم ہو جائیں گے جریدے کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر کا آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا ہے۔یہ تو سب تفصیل سے آ چکا ہے۔ بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادی کا منصوبہ رکھتا ہے بلکہ وہاں سے کشمیریوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو پاکستانی علاقے کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے اور وہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں کرنا چاہتا ہے، وہی شمال مشرق کے صوبے آسام میں بھی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست ہے جبکہ آسام میں اکثریت ہندوئوں کی ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں اور مسلمان اقلیت اتنی نمایاں ہے کہ بھارت کو بری طرح کھٹکتی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ آسام میں چند ہی دہائیوں کے بعد مسلمان سادہ اکثریت میں ہوجائیں گے۔ آسام کی کل آبادی تین کروڑ ہے۔ 60فیصد ہندو، 35فیصد مسلمان ہیں۔یعنی مسلمان ساڑھے سات فیصد بڑھ گئے، ہندو اتنے ہی کم ہو گئے تو دونوں مذہب برابر برابر ہو جائیں گے۔ 32ضلعے ہیں جن میں سے 9قطعی مسلمان اکثریت ہیں۔ لگ بھگ ایک کروڑ مسلمانوں میں سے نصف کے قریب بنگالی نژاد ہیں اور بھارت حکومت ان سب کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر رہی ہے حالانکہ ان کی بھاری اکثریت آزادی سے بہت پہلے کی یہاں آباد ہے۔ آسام کے مسلمان دہرے عذاب کا شکار ہیں۔ ایک طرف بی جے پی کی حکومت ہے دوسری طرف علیحدگی پسند بوڈو قبائل آئے روز ان کا قتل عام کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر اور آسام کے مسئلے الگ الگ، پھر بھی ملتے جلتے ہیں۔ دونوں میں آزادی کی تحریکیں ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے آسام نہیں۔ کشمیر میں شروع ان سے آزادی کی تحریک ہے، آسام میں 1970ء سے شروع ہوئی۔ کشمیر میں بھارتی فوج ایک لاکھ شہری شہید کر چکی ہے، آسام میں اب تک آسامی ہلاکتوں کی تعداد بارہ ہزار ہے۔ کشمیر میں وادی کی سو فیصد آبادی بھارت کے خلاف ہے، آسام میں ایک چوتھائی سے بھی کم۔ کشمیر کی تحریک آزادی ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں، آسام کی تحریک بتدریج دم توڑ رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ کچھ عرصہ پہلے تک بھارت میں علیحدگی کی چھ تحریکیں چل رہی تھیں، اب صرف دو ہیں۔ ایک کشمیر، دوسرے آسام کی تحریک، میزورام، ناگالینڈ، منی پور میں بھارت نے جبر اور دولت(سٹک اینڈ کیرٹ) کی پالیسی سے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ یہ چاروں ریاستیں اتنی مختصر تھیں کہ لڑ ہی نہیں سکتی تھیں۔ چاروں کی آبادی ملا کے کل ایک کروڑ بنتی ہے۔ ناگا لینڈ سب سے چھوٹا ہے، 19لاکھ آبادی کے ساتھ چھٹی ریاست پنجاب تھی۔ وہاں کا ڈراپ سین آپ اعتزاز احسن سے معلوم کر سکتے ہیں۔ ایک صاحب ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ بہار میں بھی آزادی کی تحریک چل رہی ہے، بہار ہندی بیلٹ کا صوبہ ہے یعنی بھارت کا حکمران طبقہ۔ دراصل بہار میں جھاڑ کھنڈ کے نام سے الگ صوبے کی تحریک چل رہی تھی جو بن گیا۔ ایک اور صاحب نکسلائٹ تحریک کو بھی علیحدگی پسند بتا رہے تھے، یہ دراصل سماجی ٹکرائو کی تحریک ہے جو ٹھاکروں برہمنوں اور سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہے اور اتنی ہی اکھنڈ بھارتی ہے جتنی کہ کوئی اور ہندو جماعت۔ اس کا دائرہ کار چھیتس گڑھ، مدھیہ اور مہاراشٹر تک محدود ہے اور اس کی سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں۔ کہیں سال ڈیڑھ سال کے بعد ایک آدھ واردات کر ڈالی۔ ایک اور تخمینہ نگار تمل ناڈ کا ذکر بھی کر رہے تھے۔ وہاں علیحدگی کی کوئی سوچ نہیں ہے۔ البتہ مستقبل میں ہو سکتی ہے کہ ماضی قریب میں زیادہ تر یہ علاقہ بھارت سے الگ ہی رہا۔ کبھی چولا مملکت کے نام پر تو کبھی پلوا،پانڈیا، وجے نگر اور پولیگر کے نام سے۔ رامائن کے دور میں یہ بھارت کا حصہ رہا، پھر انگریز کے دور میں۔ یہاں تک کہ یہ اکبر اعظم اور اورنگ زیب کے ہندوستان سے بھی الگ رہا۔ تمل ناڈ میں مسلمان بہت کم ہیں، صرف چھ فیصد۔ البتہ میگا سٹی چنائے(مدراس) میں قدرے زیادہ ہیں، دس گیارہ فیصد۔ ٭٭٭٭٭ گولڈن ٹمپل اور بعد میں خالصتان کی تحریک کے دوران ریاستی اداروں نے سکھوں کیخلاف بہت ظالمانہ کریک ڈائون کیا اور ہزاروں سکھ نوجوان ہلاک، زخمی اور اپاہج کر دیئے۔ پھر بھی سکھوں کا ایک بڑا حصہ آج بھی اکھنڈ بھارت کا حامی ہے جبکہ اتنا ہی بڑا حصہ بھارت کا دشمن اور علیحدگی چاہتا ہے لیکن ابھی ہتھیار اٹھانے کو تیار نہیں۔ دراصل سکھوں کا ایک بڑا طبقہ ابھی تک مغل دور کی مسلم دشمنی والی نفسیات کا اسیر ہے۔ ایک انوکھی حقیقت ریکارڈ کا حصہ کچھ یوں ہے کہ بھارت نے ستر برسوں میں ایک لاکھ کشمیری مقبوضہ کشمیر میں اور لگ بھگ اتنے ہی مسلمان مین لینڈ میں فسادات کے ذریعے شہید کیے لیکن سکھوں نے 1947ء میں چند ہفتوں کے اندر 15لاکھ مسلمان مار ڈالے۔ مسلمانوں نے بھی کچھ کم نہیں کیا لیکن کشیدگی میں پہل سکھوں نے کی۔ ٭٭٭٭٭ بھارت کی اندرونی سلامتی انارکی سے دوچار ہوتی جا رہی ہے اور یہ بھارت کے لیے خطرے کی بات ہے۔ اس کی وجہ بی جے پی کے برھمن کھتیری سماج کی سوچ اور پالیسی ہے۔ وہ ہندو قوم پرستی کی بات کرتی ہے اور مشوروں کو حقوق دینے کے لیے تیار نہیں جبکہ زمانہ بدل چکا ہے۔ اس نے 20کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگا دیا ہے اور انہیں ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کی منزل پر لے جا رہی ہے۔ نئے زمانے میں اتنی بڑی آبادی کا خاتمہ ممکن ہے نہ ملک بدری اور نہ ہی انہیں شدھ کیا جا سکتا ہے۔ یو پی کے مشہور ضلع جھانسی میں ایک قلعہ بہت عجب ہے۔ گڈھ کندار نام کا یہ بہت مشہور قلعہ چنڈیلوں نے بنایا تھا۔ دور سے نظر آتا، لیکن تین چار میل کی دوری پر نظر آنا بند ہو جاتا۔ اس کی طرف بڑھنے والے لوگ ادھر ادھر بھٹک جاتے اور کہیں اور پہنچ جاتے۔ لوگ اسے جادوگری سمجھتے حالانکہ یہ جغرافیائی جیومیٹری کے حساب سے کی گئی فنکاری تھی۔ آخر بندھیلے اس تک پہنچ گئے اور قبضہ کر لیا۔ جھانسی کے ضلعے میں نیواری کے شہر سے دس پندرہ میل کی دوری پر یہ قلعہ آج بھی سیاحوں کا مرکز ہے۔ بی جے پی نفسیاتی طور پر اسی قلعے میں رہ رہی ہے۔ وہ جو بھی کرے گی، دنیا کو پتہ نہیں چلے گا اور قلعے تک کوئی بھی پہنچ نہیں پائے گا لیکن علم و شعور بھارت میں بھی پھیل رہا ہے، دنیا بھی با خبر ہے۔ ہزاروں سال سے چلا آنے والا برہمنی حکمرانی کا ’’یگ‘‘ قدرتی عوامل سے ختم ہو رہا ہے۔ اسے بچانے کی کوشش میں بی جے پی اپنے ہی دھرم کا نقصان کر ڈالے گی۔ پلٹ آئے تو بہتر ہے۔