کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم بجھ تو جائوں گا مگر صبح تو کر جائوں گا یہ اشعار شہید ہونے والے ہارون بلور نے اپنے والد بشیر بلور شہید کو پس مرگ اعزاز دینے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے اور نہایت پرجوش طریقے سے کہا تھا کہ وطن پر جان قربان کرنے سے زیادہ کوئی قابل فخر اعزاز نہیں۔ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم سے ایک محب وطن پاکستانی نے اپنی گاڑی کا بونٹ سجا رکھا تھا اسی گاڑی پر یہ پاکستانی اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھا۔ گاڑی سے ٹیک لگائے وہ جوان رعنا کھڑا تھا اور بڑے پرعزم لہجے میں کہہ رہا تھا اسی کی زبانی سنیے۔ ’’میرا نام سراج رئیسانی ہے اور میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے مسکراتے ہوئے موت کو گلے لگائوں گا‘‘ موت اس کے تعاقب میں کھڑی ہنس رہی ہو گی مگر جو لوگ کسی مقصد اور مشن کے دیوانے اور متوالے ہوتے ہیں ان کے نزدیک زندگی اور موت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر بھی ان کے چہرے کا رنگ فق نہیں ہوتا بلکہ ایک بامقصد موت جس کا اصل نام شہادت ہے اسے دیکھ کر تو ایسے پرعزم لوگوں کا چہرہ گلنار ہو جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے کیسے کیسے گہر ہمیں عطا کر رکھے ہیں۔ ہارون بلور پشاور کے ایک نواحی علاقے یکہ توت میں اپنی انتخابی کارنر میٹنگ کے لیے جونہی پہنچے تو ایک خودکش دھماکہ ہو گیا جس کے نتیجے میں ہارون بلور سمیت 20افراد لقمہ اجل بن گئے۔ بلور خاندان بڑے فخر کے ساتھ ایسی شہادتیں پیش کر رہا ہے۔ یہ خاندان کئی دہائیوں سے اے این پی کے اسٹیج سے پشاور میں انتخابی کامیابیاں حاصل کرتا چلا رہا ہے۔2012ء میں ہارون کے والد بشیر بلور کو جو سینئر صوبائی وزیر بھی تھے ایک ایسے ہی خودکش حملے میںشہید کر دیا گیا تھا‘ انہیں موت کی دھمکیاں مل رہی تھیں مگر انہوں نے ان دھمکیوں کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہ دی۔ مرنے سے پہلے انہوں نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کہا تھا کہ مریں گے اور ماریں گے مگر امن کے دشمنوں کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ بشیر بلور کے لائق فائق صاحبزادے ہارون بلور نے انگلستان سے بارایٹ لاء کیا اور پشاور کے ممتاز وکلاء میں ان کا شمار ہوتا تھا سیاست کے علاوہ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی ان کی شہرت تھی اور وہ شوق و ذوق کے ساتھ خیر کے کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ میں نے میجر عامر صاحب سے بلور خاندان کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت حاجی غلام احمد بلور اس خاندان کے سربراہ ہیں۔ ع ایک میں رونے کو تنہا انجمن میں رہ گیا وہ بشیر بلور کے بھائی اور ہارون کے چچا ہیںانہوں نے بتایا کہ حاجی غلام احمد بلور پابند صوم و صلوٰۃ ہیں اور میں نے کئی نمازیں ان کی امامت میں ادا کی ہیں مجھے یاد آیا کہ غلام احمد بلور ایک سچے عاشق مصطفی ﷺ ہیں جب کچھ شیطان صفت لوگوں نے امریکہ و یورپ میں جناب مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے کارٹون اور خاکے بنائے تو حاجی غلام احمد بلور نے ان غازیوں کے لیے بھاری انعام کا اعلان کیا جو ایسے لوگوں کے وجود سے دھرتی کو پاک کریں گے۔ وہ اس زمانے میں وزیر ریلوے بھی تھے اور ایسا ایک اعلان انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے بھی کیا تھا۔ ان پر اور نیشنل عوامی پارٹی پر بہت تنقید ملک کے اندر اور باہر سے ہوئی مگر انہوں نے اس تنقید کی قطعاً پروا نہ کی۔ مجھے حیرت ہے کہ ایسی نظریاتی و قومی جماعتوں کو ہم علاقائی جماعتیں کیوں کہتے ہیں۔ یہ جماعتیں علاقائی ہوتے ہوئے بھی قومی سیاست کرتی ہیں جبکہ بعض قومی جماعتیں علاقائی سیاست کرتی ہیں۔ یہاں پنجاب میں اے این پی پر تنقید ہوتی رہتی ہے اور نظریہ پاکستان کے بعض علمبردار تو قیام پاکستان سے پہلے کی باتیں بھولنے کو تیار نہیں۔ اے این پی کی زیادہ شخصیات سے تو نہیں مگر کئی سال پہلے پارٹی کی سابق سربراہ بیگم نسیم ولی خان سے پشاور میں تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا تھا ۔بلامبالغہ ان کی حب الوطنی اہل پنجاب سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے رویوں کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند برس سے جواں سال میر نوابزادہ سراج رئیسانی ابھر کر سامنے آئے وہ پاکستان کے عاشق صادق تھے اور وہ اپنے اس جوش عقیدت کو چھپاتے نہیں اس کا برملا اظہار کرتے تھے ۔وہ آئندہ انتخابات میں ایک صوبائی سیٹ پر امیدوار تھے اور اسی کے لیے وہ بھر پور انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ان کی پاکستان سے محبت اور بھارت کے لیے ان کی نفرت کسی سے مخفی نہ تھی۔ واقفان حال کا کہنا یہ ہے کہ یہی محبت اور نفرت ان کے جان سے جانے کا سبب بنی۔ کوئٹہ سے مستونگ جنوب کی طرف ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ 47کلو میٹر ہے گزشتہ سال سراج رئیسانی نے یوم آزادی کے موقع پر کوئٹہ سے مستونگ تک کا طویل ترین قومی پرچم تیار کروایا اور اسے دونوں شہروں کے درمیان لہرایا اور یوں نہ صرف پرچموں کی تاریخ اور بہار میں ایک ریکارڈ اضافہ کیا بلکہ حب الوطنی کی تاریخ میں بھی ایک ولولہ انگیز اور یادگار اضافہ کیا۔ جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں توں توں وطن دشمن قوتیں ہمیں انتخابی منزل سے دور رکھنے کے لیے سرگرم عمل ہو رہی ہیں۔ایسے مواقع پر ہمارے قومی رہنمائوں کو زیادہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو انہوں نے عین انتخابات سے بارہ روز قبل انتشار پیدا کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ۔ان کے اندر اگر قومی ذمہ داری کا شعور اور سیاسی دانشمندی کی سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ انتخابات میں مصروف اپنے لیڈروں کارکنوں اور امیدواروں کو ہدایت دیتے کہ کوئی ان کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ نہ آئے۔ وہ آئیں گے گرفتاری دیں گے اور ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے ‘مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ اب میاں صاحب کی مقبولیت اور پارٹی کے جذبوں کا پول کھل گیا۔ مختلف اداروں کے مطابق لاہور میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار لوگ نکلے۔ میاں شہباز شریف گلہ کرتے ہیں کہ انہیں ایئر پورٹ پہنچنے کے لیے فری ہینڈ نہ دیا گیا شریف برادران کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے جو انہوں نے دوسروں کے ساتھ کیا تھا۔2014ء میں دھرنے کے موقع پر کیا میاں شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو فری ہینڈ دیا تھا اور کیا 2016ء کو وزیر اعلیٰ سرحد کی اسلام آباد آنے والی ریلی کو وفاقی حکومت نے فری ہینڈ دیا تھا۔ البتہ اس موقع پر میاں شہباز شریف نے اپنے برادر اکبر نواز شریف کے برعکس سمجھداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اگرچہ ان پر پارٹی کے اندر سے تیر اندازی اور پارٹی کے باہر سے طعنہ زنی ہو رہی ہے مگر انہوں نے گاڑی کے اندر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی اور یوں ممکنہ دہشت گردی کا راستہ روک دیا۔ہمارا اچھا قومی شعار ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں تمیزرنگ و خوں ختم کر کے اور پارٹی وابستگی سے ماورا ہو کر ایک انسانی اور قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمارے سیاسی قائدین غمزدہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ تاہم روز مرہ کے سیاسی امور کے بارے میں بھی ہمارے سیاست دانوں کو ایک ورکنگ ریلیشن شپ کا مظاہرہ کرنا چاہیے ‘تاکہ ہمارے باہمی اختلافات سے وطن دشمن قوتیں فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جہاں تک ہمارے محب وطن لوگوں کے جوش و جذبے کا تعلق ہے وہ مثالی ہے اور اتنے بھاری غم کے موقع پر بھی ان کے اہل خاندان صبر و حوصلے کا ثبوت دیتے ہیں اور شہادت کو ایک مرتبہ اور اعزاز سمجھتے ہیں مگر ہمیں اس انسانی ٹریجڈی کا مکمل ادراک اور احساس ہوناچاہیے جو ایسے سانحے کے بعد ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے۔ ایک شخص کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد اس کے اہل خاندان پر قیامت گزر جاتی ہے‘ مرنے والے کے بیوی بچے ہوتے ہیں اس کے والدین ہوتے ہیں اور بہت سے دیگر پیارے ہوتے ہیں۔ جہاں پشاور میں بیس بائیس اشخاص یکدم دنیا سے اٹھ جائیں اور درجنوں زخمی ہو جائیں اور جہاں مستونگ میں 149 شہید ہو جائیں اور 186زخمی ہو جائیں تو اس سے بڑی ٹریجڈی کیا ہو گی؟بلا شبہ ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار ہمارے نادان نوجوان بنتے ہیں کبھی دین کے نام پر اور کبھی قومیتوں کے علاقوں کے نام پر۔ دہشت گردی کم ہوئی ہے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے مکمل خاتمے کے لیے ہمیں شاید اور قربانی دینا ہو گی۔ قربانی کے ساتھ ساتھ ہمیں قومی یکجہتی ‘باہمی اعتماد اور زیادہ ذمہ داری و دانشمندی کا ثبوت دینا ہو گا‘ بالخصوص اگلے چند روز بہت اہم ہیں کیونکہ ملک دشمن قوتیں انتشار پیدا کر کے انتخابات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کریں گی۔ یاد رکھیے ہمیں ہر طرح کے طوفانوں کا مقابلہ کر کے انتخابی سفینے کو ساحل مراد تک پہنچانا ہے۔