بابُ الاسلام سندھ سے محمد بن قاسم کی آمد اور مسلم سپین پر طارق بن زیاد کی یلغار ایک ہی وقت میں ہوئی ۔ اُندلس میں آٹھ سو سال تک مسلمان… حکمران رہے ،مگر وہاں سے جب مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا ، تو اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دیس نکالا دے دیا گیا ۔ یورپ کے مستشرق بھی اس پر حیرت کا اظہار کرچکے ہیںکہ سپین میں بھی مسلمانوں پر زوال آیا او رہندوستان میں بھی ، لیکن ہندوستان کا سیاسی زوال ، مسلمانوں کے دینی نظام کو تباہ کیوں نہ کرسکا…؟ برطانیہ کے ایک معروف اورینٹلِسٹ ایچ اے آر گبز(GIBBS) نے ایک مرتبہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب کے دوران بھی یہ بات کہی تھی کہ :’’تاریخ اسلام میں بار ہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیاگیا، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوّف یا صوفیہ کا اندازِ فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی ۔‘‘کروڑ ہار حمتیں ہو ں، حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستاں پر ، اور آپؒ کے رفقاء اور قافلۂ شریعت وطریقت کی سرخیل و سردار ان پر اور اُن تمام نفوسِ قدسیہ پر ، جن کی بدولت آج دینِ حق کی روشنیاں اس خطّے کو منوّر کئے ہوئے ہیں ۔ اُندلس میں عرب اور بَربَرمسلمان وارد تو ہوئے ، مگر ان میں اسلام کا کوئی ایسا مُبلّغ نہ تھا، جو سیّدِ ہجویر یا خواجۂ اجمیرؒ جیسی درد مندی او رد لسوزی کے ساتھ …مقامی لوگوں کو یہ امر باور کر واتا کہ وہ اُن کے اپنے ہیں ،جو اُن کے دُکھوں کو اپنا دُکھ …اور ان کی خوشیوں کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں ،جوان کو اسلام کے دامن کرم کی محبت آمیز چھائوں مہیا کرتا۔ اس سرزمین کو بہاء الدین زکریاؒ اور نظام الدین اولیاء ؒ میسر نہ آئے ،جو ان کی کایا پلٹ دیتا ، اُن کے ہاں کوئی فرید الدین مسعودگنج شکر ؒ نہ تھا ،جو دین کو ان کے دلوں میں راسخ کردیتا ،جس کی خانقاہ کا دروازہ رات گئے تک کُھلا رہتا اور پھر آنے والے کے لیے بلا تمیزِ مذہب ومسلک ’’لنگر‘‘ کااہتمام ہوتا، ان کے لیے ایسے دستر خوان آراستہ کرتا،جہاں مقامی آبادی رنگ ونسل اورمذہب و مسلک کی تقسیم کے بغیر ، ایک ہی رتبے اور سماجی حیثیت کے ساتھ بیٹھتے ، ہندو جوگی بھی حاضر ہوتے اور اپنے اشکال رفع کرتے ،درمامذہ مقامی باشندے…آج بھی بایا فرید کے مزار پر اپنی باتیں ان سے ایسے ہی Shareکررہے ہوتے ہیں، جیسے کوئی اپنے کسی مُربی ومحسن اور خاندان کے بزرگ سے…خواجہ غریب نواز معین الدین چشتیؒ نے سلطان محمد غوری کو تراوڑی کے میدان میں فتح اورچوہان راجپوت کی پسپائی کے بعد، جو نصیحت کی تھی وہ یہی تھی کہ تمہارے طرزِ حکومت اور سلوک سے مقامی لوگوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ تم فاتح ہو اور وہ مفتوح…اس نے عرض کی ،اس کے لیے فوری طور پر کیا کروں …؟ آپ ؒ نے فرمایا کہ شکست خوردہ سردار پر تھوی راج چوہان کے بیٹے کو اپنی حکومت کی طرف سے مفتوحہ علاقے کا گورنر نامزد کردو ،…تاریخ بتلاتی ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا۔ دراصل اُندلس میں کوئی ’’داتاؒ دربار ‘‘نہ تھا جس کی فیاضی اور کرم گُستری، وہاں کے درماندہ لوگوں کو اپنے دامنِ کرم میں پناہ دے دیتی ، دنیا کے میگا سٹیز(Megacities)کے جو مسائل ہیں، ان میں لوگوں کو کھانے ، سر چھپانے کی جگہ اور سب سے بڑھ کر کہ اپنے "Catharsis"کے لیے ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے ،جہاں و ہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں ۔ آج یورپ کی اس قدر مادی ترقی کے باوجود ،وہاں کی اُداسی اور پریشانی کے مناظر اور مظاہر کو نظر انداز کرنا مشکل ہے ۔ انسان …انسانوں کے جنگل میں بھی تنہا اور ہر مادی آسائش کے باوجود آسُودہ ہیں ۔ ہر شخص نفسیاتی مسائل میں گِھرا ہوا ہے ۔ داتاؒ دربار … لاہور…اوربالخصوص خطہ پنجاب کے لیے ایک ایسی نعمتِ خدا وندی ہے کہ جہاں ہر غریبُ الدیار اور پردیسی کو ،ہر وقت کھانا بھی میسر رہتا ہے ،جس کے پاس رہنے کوجگہ نہ ہو، ا س کے لیے داتاؒ دربار کی وسعتیں …میزبانی کے لیے ہمیشہ وَاررہتی ہیں ، اور اگر کسی کے مَن کا بوجھ کسی مرض میں ڈھلتا ہوا محسوس ہو،تو، اس کو کسی سائیکالوجسٹ یا سکا ئیٹرسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ ’’مرشدِ لاہور‘‘ کو اپنا مونس وغمخوار سمجھ کر اپنے دل کی بات کہہ لیتا اور اپنا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے ۔ ایسے مرکزِ مہر ومحبت اور منبعِ وفا وعطا … اقوام ومِلل کے لیے سرمایۂ حیات ہوتے ہیں ۔ برصغیر میں اپنے اقتدار اور اختیار کو طول دینے کے لیے لارڈ میکالے نے ،02فروری 1835ء کوبرطانیہ کی برٹش پارلیمنٹ میں جو تاریخ ساز خطاب کیا اور اس کی پیش کردہ تجاویز…جو منظو رہوئیں …اس نے صرف20سال کی مختصر مدت میں برصغیر کا ایسا نقشہ تبدیل کیا، جس کا ازالہ ہم آزادی کے 72سال بعد … ابھی تک نہیں کر سکے ۔ میکالے کی پہلی بات یہ تھی کہ میں نے پورے ہندوستان کا دورہ کیاہے میں نے کسی جگہ کوئی بھکاری یا چور نہیں دیکھا۔ اور دوسری اہم بات کہ اس قوم کا روحانی اور تعلیمی نظام بہت مضبوط ہے… وہ روحانی اور تعلیمی نظام جو خانقاہ اور مسجد کیسا تھ جُڑا ہوا ہے۔ دیرپا اقتدار کے لیے اس نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔لارڈ میکالے جانتا تھا کہ برصغیر کی غالب مسلم آبادی صوفیاء کی ماننے والی ہے ،خانقاہیں ہی اس سوسائٹی کا "Nucleus"ہیں ،یہیں سے انہیں مادی اور روحانی غذا میسر آتی، جو انہیں طاقت ، ہمت اور توانائی عطا کرتی ہیں ۔چنانچہ خانقاہوں کے ــ"لنگر سسٹم "کو برباد کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ۔ ان کی وہ وقف املاک چھین لی گئیں ،جن کی آمدن کے سبب یہ سماجی بہبود اور سوشل سیکیورٹی کے ادارے ’’خود مختار‘‘ حیثیت میں کام کرتے تھے ،ان کے مالی وسائل بحقِ سرکار ضبط ہو گئے، یوں ان کو مالی طور پر پسماندہ اور معاشی حوالے سے دیوالیہ کرنے کی کوشش کی گئی ، اس دوران ہمار ے دینی اور روحانی مشاہیر نے بڑی قربانیاں دیکر مِلّی روایات کی آبیاری کی اور مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ کی حفاظت کی ۔ دراصل یہی ادارے ہماری سب سے بڑی ’’این جی او‘‘ ہیں ، جن کے خود کفالتی نظام سے دنیا گھبراتی ہے ،جس کی روایات کا تسلسل آج بھی آپ کو بالخصوص خانقاہوں میں مل سکتا ہے ۔ کم وبیش تیس سال پہلے کی بات ہے مجھے گولڑہ شریف حاضری کا اتفاق ہوا ،میں نے دیکھا کہ وہاں کے سجادہ نشین حضرت شاہ عبدالحق…جن کو لوگ ’’چھوٹے لالہ جی صاحب‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ، ملنے والے ہر شخص سے یہی پوچھتے تھے کہ کیا آپ نے کھانا کھا لیا ہے ؟ آپ نے اگر قیام کرنا ہے، تو رہنے کے لیے آپ کو سرائے میں جگہ مل گئی ہے ۔؟ پوٹھوہار میںآج بھی اگر کسی نے عملی طور پر کسی خانقاہ کے ماڈل کو دیکھنا ہو، تو وہ گولڑہ شریف میں جا کر دیکھ سکتا ہے ، جہاں سے اسلام آباد اور اس کے گردو نواح کی اکثر آبادی پیر مہر علی شاہ کے لنگر سے مستفیض ہورہی ہے ۔’’ لنگر‘‘خالصتا ایک خانقاہی اصطلاح ’’صوفیا‘‘کی سوشل ریفامز کا اہم حصہ اور انکی درگاہ کا بہت بنیادی عنصر ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے صوفیاء کی اس روایت کو آگے بڑھانے کااعلان کیا ہے ، جوکہ ایک مستحسن قدم ہے۔ ٭٭٭٭٭