جب سے رمضان المبارک شروع ہوا ہے‘ ہر روز افطاری سے قبل عافیہ صدیقی موومنٹ کی جانب سے ایک میسج موصول ہوتا ہے کہ ’’آج افطاری کے وقت دعائوں میں قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو ضرور یاد رکھیں! چند لفظوں پر مشتمل یہ میسج ہر روز ہی دل کو ایک عجیب تکلیف‘ بے بسی اور رنج سے دوچار کر دیتا ہے۔ سوچیں کہ عافیہ کے اہل خانہ پر کیا گزرتی ہو گی۔ ظلم کے سامنے بے بسی کس طرح ان کے احساس کو کرچی کرچی کرتی ہو گی مرنے پر صبر آ جاتا ہے مگر وہ جن کے پیارے ظلم کی کسی گھڑی میں ان سے اس طرح جدا ہوئے کہ ان کی خبر تک نہیں۔ ان کے اہل خانہ لمحہ لمحہ قیامت سے گزرتے ہیں۔ جب سے پاکستان کی ایک نوعمر بیٹی سبیکا امریکہ کے سکول میں دہشت گردی کا نشانہ بنی ہے۔ عافیہ کا تذکرہ بھی میڈیا میں ہونے لگا۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے ٹیکساس کے carswell detention center کارزول ڈی ٹینشن سنٹر میں ملاقات کی ہے اور کنفرم کیا ہے کہ عافیہ صدیقی ابھی زندہ ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عائشہ فاروقی نے بتایا کہ عافیہ بقید حیات ہے۔ اور جو زندگی وہ امریکی جیل خانے میں گزار رہی ہے وہ موت سے بدتر ہے۔ سو ابھی قید حیات سے چھٹکارا نہیں ملا۔ عافیہ بدقسمت ہے کہ وہ ایک ایسی قوم کی بیٹی ہے جس کے حکمرانوں نے صرف امریکی آقائوں کے سامنے ممیانا سیکھا ہے۔ وہ اپنے امریکی ماسٹرز کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ ہم Baggers are not choosersکے المیے سے دوچار ہیں۔ عافیہ صدیقی کو 2010ء میں امریکی عدالت نے 86سال کی قید سنائی تھی جبکہ اس پر کسی ذی روح کو قتل کرنے کا الزام نہیں ہے۔ اس کے برعکس امریکی میڈیا 10معصوم طالب علموں کو قتل کرنے والے 17سالہ قاتل کا دفاع کر رہا ہے اور اسے ابھی سوئٹ اور کوائٹ بوائے لکھا جا رہا ہے۔ عائشہ فاروقی نے مظلوم عافیہ سے ملاقات اس تناظر میں کی کہ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا میں خبریں چل رہی تھیں کہ عافیہ زندہ نہیں ہے۔ بہرحال اب تو پاکستانی قونصل جنرل نے خود تصدیق کی ہے کہ مظلوم پاکستانی بیٹی ظلم اور جبر کے زندان میں اپنی سانسیں پوری کر رہی ہے۔ چند ماہ پہلے ہی عائشہ فاروقی کا ایک خط فوزیہ صدیقی کے نام آیا تھا جس میں وہ لکھتی ہیں کہ انہیں جیل کے اندر ایک تاریک سیل میں لے جایا گیا جہاں ایک نحیف و نزار سی خاتون یوں بیٹھی تھی گویا کپڑوں کی ایک گھٹڑی سی رکھی ہو۔جیل حکام نے بتایا کہ یہی عافیہ صدیقی ہے۔ قدرے گمنامی میں رہنے کے بعد آج کل پھر یہ ایشو خبروں میں ہے پاکستان کی نوعمر طالبہ سبیکا کی ایک امریکی کے ہاتھوں ناگہانی موت پر اس وقت زیادہ امریکیوں اور امریکی میڈیا کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کی وزارت خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی کو عافیہ کی رہائی کے لیے بھر پور کوششیں کرنی چاہیے۔ اور اپنے موقف کو دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔ سبیکا کے ناگہانی قتل پر اگر سو فیصد نہیں تو سو میں سے 20فیصد ہی سہی امریکہ کا رویہ معذرت خواہانہ ضرور ہے۔ ظاہر ہے پوری دنیا میں امریکہ کی سبکی ہوئی۔ سو اس موقع سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی سہی ایک مظلوم عورت جو مسلسل ظلم سہہ کر اپنے ہوش و حواس بھی کھو چکی ہے ذہین اور قابل سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی تو راستے میں کہیں کھو چکی ہے اب تو وہ ایک زندہ لاش کی طرح ہے کوئی اہل اختیار میں سے جو کوشش کرے کہ وہ زندگی کے آخری دن اپنوں کے درمیان گزارے۔!! ٭٭٭٭٭ کالم کے دوسرے صفحے میں بات کرنا چاہوں گی فیس بک یا وٹس ایپ پر وائرل ہونے والے ایسے پیغامات کی جس میں کسی مخیر پاکستانی کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو رمضان میں راشن کی ضرورت ہے۔ یا دوائوں کی ضرورت ہے تو مفت راشن اور دوائیں حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نمبروں پر رابطہ کریں۔ ایسا ہی ایک میسج جب میرے ان ہاکس میں پانچویں‘ چھٹی بار موصول ہوا تومیں نے صحافیانہ تجسس کے باعث سوچا کہ دیے گئے ان نمبروں کو چیک کرنا چاہیے آیا اس پر کوئی رسپانس بھی دیتا ہے یا نہیں اس میسج میں کم و بیش 10‘15نمبر رابطے کے لیے دیے گئے تھے۔ میں نے رینڈملی(randomly)نمبروں پر کال کی۔ لیکن کسی ایک بھی نمبر سے جواب نہیں ملا۔ کوئی نمبر بند ہے کوئی استعمال میں نہیں۔ کسی سے جواب موصول نہیں ہو رہا۔ کیا یہ ضرورت مندوں کی ضرورت اور غربت کا مذاق اڑانے والی بات نہیں کہ پہلے تو آپ حاتم طائی بن کر غریبوں کو ترغیب دیں کہ جس کو بھی مفت راشن اور دوائوں کی ضرورت ہے وہ ان نمبروں پر رابطہ کریں اور پھر جب بے چارے ضرورت مند کرتے ہوں گے تو ان میں سے کسی بھی نمبر پر رابطہ نہیں ہو پاتا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹوں کا یہی مسئلہ ہے کہ اصل شخص کی شناخت نہیں ہو پاتی نہ جانے وہ کون حاتم طائی ہے جس نے یہ بھونڈا مذاق کیا لیکن حیرت تو مجھے ان اچھے بھلے سمجھدار لوگوں پر ہوتی ہے جو دھڑا دھڑ اس میسج کو فارورڈ کرتے جاتے ہیں اس کی سچائی پرکھے بغیر۔ میں نے اپنے صحافیانہ تجسس کے باعث ایسے ہی چیک کر لیا ویسے بھی آج کل ہماری قوم کا بہترین مشغلہ وٹس ایپ پر میسج فارورڈ کرنا ہے۔ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کی طرف سے ایسے میسج وصول ہوتے ہیں کہ اللہ کے دس نام دس نمبروں پر فارورڈ کر دیں آپ کی کوئی بڑی خواہش پوری ہو گی۔ افسوس تو مجھے اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں نے رسول پاک ؐ پر درود بھیجنے جیسی مقبول مقدس اور خالص عبادت کو بھی وٹس ایپ کے میسجز کی نذر کر دیا ہے ذرا سوچیے۔ میسج آتا ہے ایک بار یہ درود پڑھ کر آگے فارورڈ کر دیں اگر آپ کو رسول پاکؐ سے محبت ہے۔ پھر لکھا ہوتاہے ہم نے ارادہ کیا ہے کہ آج ہم ایک کروڑ بار درود نبی پاکؐ کو بھیجیں گے اور طریقہ یہ ہے میسج فارورڈ کرتے جائو۔ یہ کون سا طریقہ ہے نبی پاکﷺ پر درود بھیجنے کا۔ میں کوئی عالم دین نہیں لیکن رسول رحمتؐ سے میری عقیدت میری رہنمائی ضرور کرتی ہے کہ اگر آپ نے رسول خداؐ پر درود بھیجنا ہے تو پھر محبت کے سب تقاضے پورے کریں پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ درود پڑھیں جیسے کہ نبی پاکؐ آپ کو سن رہے ہوں۔ محبت ‘ عشق اور عقیدت رسولﷺ کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ فارسی کا ایک شعر یاد آتا ہے۔ ؎ ہزار باربشویم دھن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی میں اپنی زبان ہزار بار بھی مشک و گلاب سے دھو لوں پھر بھی آپؐ کا نام لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں بے ادبی کا مرتکب نہ ہو جائوں اور اب یہ حال ہے کہ میسجز فارورڈ کر کرکے درود پاک پڑھا جا رہا ہے۔ یعنی سوشل میڈیا کا چسکا بھی پورا ہوتا رہے اور درود بھی پڑھتے رہو۔ لیکن آپس کی بات ہے لوگ کہاں پڑھتے ہیں بس فارورڈ کرنے کا جتن ہی کرتے ہوں گے۔ عالمان دین کو اس حوالے سے رہنمائی کرنی چاہیے۔