چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر متوازی اور سیاسی انجینئرڈ احتساب کا بڑھتا تاثر ایک خطرناک سوچ ہے۔ احتساب کے عمل کو غیر متوازی ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوزم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے لیکن ہم آئین و قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ سوموٹو صرف ناگزیر صورتحال میں لیا جائے گا، ابھی تک وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں ۔جب قانون میں کوئی اور ریلیف میسر نہ ہو تو سپریم کورٹ اپنے اس خصوصی اختیار کو استعمال کرے تو بہتر ہے ،اس سے باقی اداروں کو بھی اپنا کام کرنے کا موقع ملے گا۔ یہی درست قانونی اور آئینی طرزعمل بھی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اگر ہر مسئلے پر بھی سوموٹو لے لے تب بھی پاکستانی معاشرے میں گڈ گورننس نہیں آ سکتی۔ دراصل گڈ گورننس ایک سوچ اور فکر کا نام ہے اور جن ممالک میں گڈ گورننس قائم ہے وہاں پر بھی وہ کسی سوموٹو کے استعمال سے قائم نہیں ہوئی بلکہ معاشرتی شعور کے بڑھنے کے بعد ہی آئی ہے۔ سابق چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے کتنے سوموٹو لیے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد اکثر مسائل جوں کے توں ہی ہیں۔ اصل میں ہمارا نظام ہی دیمک زدہ ہے اگر اسے کوئی سہارا ملے تو کھڑارہتا ہے ورنہ پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ عدالتی نظام کی مناسبت سے انصاف سے محروم عام آدمی کو فائدہ پہنچنا چاہیے لیکن اس سے ایک متوازی نظام کا تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے۔ آئین پاکستان میں بلا شبہ تمام ریاستی اداروں کے اختیارات اور انکا دائرہ کار متعین ہے۔ جو عدلِ گستری سمیت پورے پارلیمانی اور جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ چنانچہ عدلیہ ‘ مقننہ اور انتظامیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے آئینی اختیارات کو بروے کار لا کر سسٹم کی بنیاد مستحکم کرنے میں تعاون کرنا چاہیے۔ اگر اس جذبے کو پیشِ نظر رکھ کر ادارہ جاتی ذمہ داریاں آئین کے تقاضوں کے مطابق ادا کی جاتی رہیں تو سلطانی جمہور میں ہر قسم کی ناانصافیوں کا خاتمہ ہو سکے گا۔ اس سے سسٹم مستحکم اور بے وسیلہ عام آدمی کی بھی داد رسی ہو سکے گی۔ میڈیا پر پابندیاں کسی بھی معاشرے کی نشوو نمامیں مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔کیونکہ میڈیا ہی سارے معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے ، جب اس آنکھ کے کھلنے پر ہی پابندی عائد ہو تو وہ معاشرے کا نقشہ کیسے پیش کرے سکے گی؟ اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک سابق آمر نے بھی اپنے دور میں میڈیا کا گلا گھوٹنے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن ریاست کے چوتھے ستون سے وابستہ کارکنان کی جدوجہد کے سامنے وہ بھی نہیں ٹھہر سکا، درحقیقت ایسی ہی محلاتی سازشوں سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ جہاں تک بعض سیاستدانوں کے انٹرویو نشر نہ کرنے کا تعلق ہے تو حکومتی موقف واضح ہے کہ ملزمان کے انٹرویو کیسے نشر کئے جا سکتے ہیں۔دوسری طرف ہمارے میڈیا کو بھی بے مہار نہیں ہونا چاہیے۔ راستے چلتے مسافر کی پگڑی اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ریاست کے چاروں ستونوں کو ملکر کام کرنا چاہیے کیونکہ جمہوری استحکام کے لئے تمام ریاستی اداروں کا فعال اور ایک پیچ پر ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تمام اداروں کو مل بیٹھ کر اپنی حدود متعین کر لینی چاہئیں۔ آئین و قانون میں کس ادارے کی کیا ذمہ داری ہے اگر تمام ادارے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں تو مسائل جنم ہی نہ لیں۔ اصل میں مسئلہ جنم لیتا ہے جب ایک دوسرے کے اختیارات کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے احتساب کا سلسلہ شروع کیا ہے نیب اب تک لوٹے ہوئے کئی ارب روپے واپس قومی خزانے میں جمع کرا چکے ہیں جن لوگوں کے خلاف احتساب کا عمل جاری ہے وہ جان خلاصی کے لیے راہ ِ فرار بھی اختیار کریں گے اور الزام تراشی بھی کہ صرف ہمارے گرد ہی شکنجہ کسا جا رہاہے۔ دراصل انہیں لوگوں نے ماضی میں بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے۔اب لوٹا مال واپس کرنے پر انھوں نے چیخ و پکار شروع کر رکھی ہے ۔نیب نے ہر ملزم کو یہ سہولت دی ہے کہ وہ لوٹا ہوا مال واپس کر کے خلاصی حاصل کر سکتا ہے لیکن کچھ لوگ مال بھی ہڑپ کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ساتھ بے گناہی کا شور بھی کر رہے ہیں ۔ پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ بلا تفریق سب کا احتساب ہو۔لیکن اپوزیشن اور خصوصی طورپر ملزمان کی طرف سے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ الزام کے درست اور غلط ہونے کی تحقیق کرانی چا ہیے ۔ جعلی اکائونٹس میں گرفتار ملزمان اپنے جرم کا اقرارکرکے پلی بارگیننگ کر رہے ہیں، اگر کسی ملزم نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا تو وہ پیسے واپس کیوں کرے گا؟ مجید غنی اور ان کے شریک ملزمان بھی پونے گیارہ ارب روپے واپس کرنے پر تیار ہیں اس طرح دیگر کیسز میں کئی ملزمان نے لوٹی رقم واپس کر دی ہے۔ چودھری شوگر ملز میں گرفتار ملزمان نے بھی کئی راز اگل دیے ہیں۔ دراصل یکطرفہ احتساب کا کچھ سیاسی جماعتیں پروپیگنڈہ کر رہی ہیں، اگر واقعی کوئی ایسی بات ہے تو سپریم کورٹ کے پاس اختیارات ہیں وہ اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے احتساب کے عمل میں جو نقائص ہیں انہیں دور کرے تاکہ آئین و قانون کے مطابق بلا تفریق احتساب کا سلسلہ جاری رہے۔کیونکہ احتساب کے عمل سے ہی ادارے اور جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور احتساب ہی جمہوری نظام کی استحکام کا ضامن ہے۔