نہ جانے کیوں ایک استاد کا شعر بار بار ذہن میں آتا رہا: ایک سب آگ ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں شاید اس کے پیچھے بلاول کا افطار ڈنر اور اس میں مریم نواز کی شمولیت ہے۔ مگر شعر تو بہت ہی خوبصورت ہے اسے سیاست سے کیا سروکار۔ یہ آگ اور پانی کا ملاپ بھی نہیں کہ سیاستدان موقع کی مناسبت سے آگ بھی بن جاتا ہے اور پانی بھی۔ یعنی اس کی اپنی کوئی مخصوص صلاحیت نہیں ہوتی۔ ہاں رنگ بدلنا ایک شعبدہ بازی ضرور ہے۔ شاعر تو کچھ اور انداز میں سوچتا ہے۔ وہ تو ایک آئیڈیل صورت حال ہوتی ہے کہ وہ صبر بھی کھینچے اس میں خلوص اور محبت ہوتی ہے۔ آپ کو اس حوالے سے ایک شعر پڑھا کر آگے چلتے ہیں: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو جو بھی ہے بلاول کے افطار ڈنر کی دھوم تو ہے کہ اس میں مریم نواز کی صحیح طور پر پہلی سیاسی انٹری ہے، ایک طویل خاموشی کے بعد نواز شریف کی لب کشائی اور اب مریم کی باقاعدہ عملی لانچنگ۔ سیاست میں ارتعاش تو آیا ہے۔ اگر شہباز شریف کے جانشین حمزہ شہباز بھی مریم کے ساتھ تھے مگر ایسے کہ بقول حفیظ جالندھری’’میں آیا تو نہیں لایا گیا ہوں‘‘ دونوں پارٹیاں اس ملاقات کو اس میثاق جمہوریت جو مذاق جمہوریت ہی بنی رہی کہ ایکس ٹینشن کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ ملاقات فراز کے مصرع کے مصداق بھی ہے’’اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا‘‘بہر حال یہ بقائے باہمی کا معاملہ ہے اور ان کو قریب لانے میں سب سے بڑا ہاتھ تو عمران خان کا ہے اور اس سے بھی زیادہ نیب کا۔ بڑوں کو بچانے کے لیے چھوٹے آگے آ گئے ہیں، ویسے بھی انہیں آگے آنا ہی تھا کہ اگلی پاکستانی نسل پر حکومت کس نے کرنی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے پاس بھی اس قسم کی چوائس ہے۔ کسی نے خوب کہا تھا: پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے بلاول اور مریم دونوں سے یہ سوال تواتر سے پوچھا گیا کہ آپ تو ایک دوسرے کے خلاف حدیں پار کر رہے تھے اور اب اکٹھے بیٹھے ہیں۔ اس سوال کا جواب تو عام سا ہے اور سیاستدانوں کے لیے تو یہ سوال ہی نہیں کہ وہ تو جمہوریت کو بچانے کے لیے آگے آئے ہیں، مخالفت تو جمہوریت کا حسن ہے، ایسے ہی جیسے جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔ جمہوریت بچے گی تو وہ آپس میں مخالفت بھی رکھ سکیں گے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ اس ملاقات کو یو ٹرن بھی نہیں سمجھتے بلکہ وی ٹرن سمجھتے ہیں۔ یعنی ’’وی فار وکٹری‘‘ ویسے بہتر ہوتا کہ بلاول تلخ سوالوں کے جواب میں منیز نیازی کا شعر پڑھ دیتا: کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے بہر حال دونوں پارٹیوں نے عید کے بعد احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ردعمل آئے گا۔ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا ہے کہ وہ احتجاج کا شوق پورا کر لیں اور یہ جملہ ہر حکومت اپوزیشن کے حوالے سے کہتی آئی ہے۔ یہ ایسا ہی جملہ ہے جیسے حکمران ہر واردات یا حادثے کے بعد کہتے ہیں کہ ذمہ داروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کہ اس نے ابھی تک کچھ ڈلیور نہیں کیا۔ سچی بات کوجھوٹی کیسے کہہ دیں کہ حکومت کے ترجمانوں نے دو چیزوں پر زور دیا۔ ایک تو سابقہ حکمرانوں کو ڈاکو چور اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہا، چلیے اس کو تو مان بھی لیتے ہیں مگر وہ پچاس لاکھ گھروں اور کروڑ نوکریوں کے وعدے سب کیا ہوئے۔ میں تو بہت رجائیت پسند ہوں کہ اب جو سمندر سے تیل نہیں نکلا تو اس پر افسوس کیا کہ یہ ناکامی پاکستان کا نقصان ہے۔ لوگوں کے منفی رد عمل کے رد عمل میں لکھا کہ! جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کو راست اقدام کرنا ہوں گے۔ صرف باتوں سے کچھ نہیں بنے گا۔ عوام کو اپنے ساتھ ملانا بہت ضروری ہے۔ وہ اب بھی تبدیلی کے خواہش مند ہیں مگر وہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان بھی ہیں اور آنے والے بجٹ نے انہیں سراسیمگی میں ڈال دیا ہے کہ شبر زیدی کہہ رہے ہیں کہ نئے بجٹ میں نئے ٹیکس بھی لگیں گے۔ محسوس ایسے ہو رہا ہے کہ اب ہم آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہیں۔ بیرونی قرض خطرناک حد تک پہنچ چکا ۔ عمران خان بے چارے نے تو بچت کرتے کرتے وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں تک بیچ دی تھیں مگر بھینسیں اتنی اہم نہیں تھیں جتنے وہ سفید ہاتھ تھے جو پچھلے حکمرانوں نے پال رکھے تھے۔ یہ سفید ہاتھی خان صاحب کو بھی لینے پڑے ہیں کہ ہاتھیوں والے تو ہاتھیوں والے ہوتے ہیں کہ ویسے بھی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ سوشل میڈیا پر اس افطار پارٹی کے خوب چرچے رہے۔ پی ٹی آئی والوں نے خوب خوب پوسٹیں لگائیں کہ یہ ابو بچائو افطار پارٹی ہے۔ کبھی یہ بہت معروف نعرہ تھا یا دعا تھی ’’اے خدا مرے ابو سلامت رہیں‘‘ اس پر مجھے ارسلان کے ابو افتخار چودھری بھی یاد آئے جن کو ان کا فرزند ہی لے بیٹھا۔ مگر ابو کے بغیر بھی تو کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا پر مریم نواز اور بے نظیر دونوں کو پیلے رنگ کے لباس میں دکھایا گیا اور تحریر کیا گیا کہ یہ نون لیگ والے محترمہ کو نہ جانے کیا کیا کہتے تھے اور اب مریم کو ان کا نعم البدل بتا رہے ہیں۔ مجھے شیخ رشید کی شگفتہ بیانی بھی یاد آئی جو وہ محترمہ بے نظیر کے بارے میں تھی۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اکثر بھاری رہتی ہے کہ ن لیگ اور دوسرے جواب میں عمران خان کو نا اہل اور سلیکٹڈ کہتے ہیں۔ فراڈیا بھی لکھتے ہیں مگر اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ڈار لوگوں کے لیے ہوئے قرضے عمران کو اتارنے پڑ رہے ہیں اور بیل آئوٹ کے لیے اسے جھکنا پڑا۔ حکومت کو سوچنا ہو گا کہ عید کے بعد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ اسی قوم سے پیسے لے کر دکھائیں گے۔ یہ قوم تو پہلے ہی بے حال ہے۔ یہ پیسہ پیسے والوں سے نکلوائیں۔ وہ جو مراعات یافتہ طبقہ ہے انہیں ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں۔ عوام کو بھی سکھ کا سانس آئے۔ ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی