کسی نے یاد رکھا کب سبھی کچھ ہی چلو ہم بھول جائیں اب سبھی کچھ ہی اسے کھونے کی قیمت ہے میں جو کچھ ہوں اسے کھویا تو پایا تب سبھی کچھ ہی مگر حقیقت کی طرف آیا تو معلوم ہوا سب زندگی کے واہمے تھے وگرنہ بات تو کچھ اور ہے۔ ’’نہ جانے سعد پھرتا ہوں میں در در۔اسے پانے کا مطلب جب سبھی کچھ ہی۔ اقبال نے بھی تو کہا تھا وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔مجھے یہ سب کچھ اس لئے بیان کرنا پڑا کہ بلوچستان سے آئی ہوئی ایک خاتون حالات کا نوحہ پڑھ رہی تھی اور اس کا سارا غم اور دکھ اس کے الفاظ میں ڈھل رہا تھا۔سچ تو سچ ہے ظاہر ہو جاتا ہے اس نے کہا کہ کوئی بتائے کہ یہ کیا مذاق ہے کہ ہم پٹرول یہاں سے نہیں لے سکتے گیس وہاں سے نہیں لے سکتے گندم ادھر سے امپورٹ نہیں کر سکتے اور فلاں چیز ادھر سے نہیں لے سکتے یہ کیا مذاق ہے۔ایسی غلامی ایسی بے چارگی اور ایسی ذات اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ ایک بم مار کر آپ سب کو مار دو۔ اس نے قرضوں کا پوچھا کہ اتنے قرضے کہاں گئے بلوچستان میں تو کوئی کام نظر تک نہیں آتا۔ایسے ہی ایک شعر یاد آ گیا: سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے مگر ہم نے خدا کسی اور کو بنا رکھا ہے میں اسے انسانی کمزوری خیال کر لوں تو کر لوں وگرنہ یہ شرک کے کھاتے میں بھی جا سکتا ہے۔ سوچنا تو پڑے گا کہ ہم اپنی آزادی کو سچ مچ مکمل طور پر گروی رکھ چکے۔عوام کو غلام در غلام بنا دیا۔عوام کو زیر بار رکھنے کے لئے حکومتیں کس طرح اوپر بھتہ پہنچاتی ہیں آپ اسے چارہ کہہ لیں۔جی وہی چارہ جو گائے کھاتی ہے اور پھر گائے بھی کون سا اپنی ہے کتنی شرمناک بات ہے۔ایک استحصالی طبقہ اشرافیہ یا بدمعاشیہ ہے کہ قوانین ہیں کہ ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ابھی میں ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ بہت درد ناک تھی کہ کہ وہ مزدور جو اڑھائی من کی بوری اٹھاتا ہے وہ اسے خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اور جو اس کو خریدنے کی طاقت رکھتا ہے اسے اٹھا نہیں سکتا۔ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات دوبارہ میں بلوچستان سے آئی ہوئی غیرت مند خاتون کے بیان پر آتا ہوں کہ وہ درست کہہ رہی تھی کہ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے حتیٰ کہ جو قرضہ ملتا ہے وہ بھی اپنی مرضی سے استعمال نہیں کر سکتے۔تاہم حکمران یقینا اس قرضے کا بڑا حصہ اپنی مرضی سے خوردبرد کرتے ہیں جہاں تک گندم خریدنے کا معاملہ ہے جس کا تعلق حالیہ روس دورہ سے ہے ایک لمحے کے لئے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سب سے بڑی رکاوٹ تو ہم خود ہیں ایک زرعی ملک آخر گندم پیدا کرنے میں خود مختار کیوں نہیں۔ کیا یہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے دونوں ادوار میں نہیں ہوا کہ پہلے ہم نے حکومت کی ملی بھگت سے لاکھوں ٹن گندم باہر بھیجی اور پھر جب یہاں کمی کا شور مچا تو پھر باہر سے گھٹیا گندم منگوائی اور سب سڈی لے کر اسے آٹے میں تبدیل کیا یہ سب لوٹ مار ہم خود کرتے ہیں چینی وغیرہ کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف حکمرانوں کے اللے تللے دیکھتی ہے اور کچھ نہیں کہتی۔ وہ اپنے غلاموں کو نوازتی ہے ،توانا رکھتی ہے تاکہ وہ عوام کی کھال اتار سکیں خودمختاری کی بات انہیں کیوں پسند آئے گی کہ ان کی پرتعیش زندگی دائو پر لگ جائے گی ان کی آل اولاد سرمایہ اور پراپرٹی تو باہر ہے اکائونٹس بھی انہی کے کنٹرول میں ہیں وہ جسے آکٹوپس کی گرفت میں ہیں۔ قوم کے اندر یہ جو حالیہ آگہی اور ردعمل کی لہر ہے یہ ایسے ہی پیدا نہیں ہو گئی پہلی مرتبہ کچھ پڑھا لکھا اور سوچ رکھنے والا طبقہ باہر نکلا ہے آپ اس سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ایک بات تو دل کو لگتی ہے کہ عالمی سطح پر ہم لاچار اور معذور کیوں ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی آزاد نہیں رکھ سکتے یقینا یہ آسان نہیں اس کا اسلوب بھٹو نے اپنایا تھا اور پھر انجام دیکھنا پڑا کہ ہمارے زر خرید غلام ہی سانحہ کا باعث بنے۔اب لوگوں کا خوف جاتا رہا ہے اور یہ بذات خود ایک خوف ناک بات ہے۔ گائے کا دودھ پینے کے لئے ایک ہی طبقہ کیوں اور چارہ کھلانا عوام کے ذمہ ہی کیوں؟ ہماری خود مختاری کی خواہش یقینا ہمارا حق ہے مگر یہ افسوسناک بات ہے کہ ہم خود تو صراط مستقیم پر آ جائیں صورت حال یہ ہے کہ ہر طرف تشویش کی ایک لہر ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔عمران خان الگ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر ان کے خلاف ویڈیوز آئیں تو وہ سب کچھ قوم کے سامنے لے آئیں گے انہوں نے ویڈیو ریکارڈ کر رکھا ہے کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ہماری توانائیاں تو آپس کی لڑائی ہی میں ختم ہو جائیں گی یہ آڈیو ویڈیو کا کھیل بھی عجیب ہے۔ پہلے تو انہی ویڈیوز کی بنیاد پر لوگوں کو ایک طرف دھکیلا گیا۔نیب کے چیئرمین کی قابل اعتراض ویڈیو سامنے لائی گئی اور نیب کو مخالفین کے لئے استعمال کیا گیا۔اب تو بہت کچھ سننے میں آ رہا ہے کہ ویڈیو کا ایک انبار سامنے آنے والا ہے۔ویسے ایک بات عجیب و غریب ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت ہی شدت کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں مگر ہم اس کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لئے خود ہی کیوں تیار رہتے ہیں جب وہ آپ کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں تو آپ کو خود مختاری کا خیال آتا ہے۔ عوام تو کسی کھاتے میں ہی نہیں وہ تو صرف استعمال ہوتے ہیں جس دن سچ مچ عوام کسی کو لے کر آئیں گے تو وہ سچا انقلاب ہو گا۔ یہ بھی اچھا ہے کہ سب ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں اب مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں اور جن کے پاس سب کچھ ہے وہ پھنس گئے ہیں۔ ٭٭٭٭