بلوچ فطرتاً وضعدار اور مہمان نواز ہوتا ہے،غریب سے غریب بلوچ بھی، اپنے گھر آئے مہمان کی خاطر مدارت اور دلجوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا،مہمان کے لیے حسبِ استطاعت قالین،نَمدہ،دری یا چٹائی آراستہ کی جاتی ہے، پانی،چائے وغیرہ پیش کرنے کے بعد،جب مہمان تھوڑا آرام کر کے تازہ دم ہو جاتا ہے،تو پھر میزبان اُس سے اپنی گفتگو اور بات چیت کا آغاز کرتا ہے،اپنے میزبان کے حسبِ استفسار۔۔۔ مہمان اپنا حال احوال۔۔۔یعنی وہ کہاں سے آیا ہے ،کیسے آیا ہے ، سفر کیسا رہا،راستے میں کیا کچھ دیکھا یا سُنا،علاقے میں آبادی،موسم اور بادو باراں کے حالات کیا تھے؟یہ سب کچھ تفصیلاً بیان کرنے کے بعد،پھر مہمان اسی طرح اپنے میزبان کی مزاج پُرسی کرتا اور اس کے احوال بھی تفصیل کے ساتھ جانتا اور سنتا ہے۔اس ابتدائی مرحلے کو، میزبان’’باقی خیر‘‘کہہ کراختتام پذیر کرتا ہے۔ اب رسمی طور پرخوش آمدید ۔۔۔پھر طعام اورگفت وشنید و خوش گپیوں کے سلسلہ جاری ہوتا ہے۔۔۔ تآنکہ مہمان آرام کرنے اور سو جانے یا روانہ ہونے کی خواہش کا اظہار نہ کرے۔ اس سارے عمل کو’’بلوچگی حال احوال‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کی بابت سُن تو رکھا تھا،مگر عملاً اس کا منظر اور مظہر گذشتہ ہفتہ کے روز اس وقت دیکھنے کو ملا، جب جنوبی پنجاب کے پسماندہ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں کے لوگ اپنی روایتی وضع، قطع اور لباس و اطوار کے ساتھ، وزیراعلیٰ پنجاب کے مہمان ہوئے،بارتھی اور تونسہ کے دور افتادگان کی90۔شاہراہِ قائداعظم لاہور ،یہ آمد۔۔۔ دراصل اسی تبدیلی ہی کا ایک حوصلہ افزا پہلو ہے،جس کا اس خطے کے عوام کو، گذشتہ کئی دہائیوں سے انتظار تھا۔۔۔اور مہمانوں کی یہ آمد،کوئی دس،بیس یا سو پچاس پر مشتمل نہ تھی، بلکہ ان مہمانوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی، جن کے لیے لاہور اور اہالیانِ لاہور کے دیدہ و دل فرشِ راہ ہوئے،اس سلسلۂ آمد کے کئی قابلِ ذکر پہلو ہو سکتے ہیں، لیکن یہاں اس سلسلے کی باقاعدہ تقریب کے صرف ایک ہی مرحلے کا تذکرہ مقصود ہے اور وہ ہے ’’بلوچگی حال احوال‘‘جس میں میزبانِ مکرم سردار عثمان احمد خان بزدار،ہال سے ملحق لابی میں ایک ڈائس ،جہاں انہوں نے مسلسل کئی گھنٹے کھڑے رہ کر،اپنے ایک ایک مہمان کا استقبال اور’’بلوچگی حال احوال‘‘کیا۔ آنے والے مہمانوں میں اکثریت کا تعلق تحصیل تونسہ اور تحصیل کوہ سلیمان سے تھا۔ کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ، جو پنجاب اور بلوچستان کے مشترکہ علاقوں میں نمایاں اور معتبر ہے،کے گرداگرد بہت سے بلوچ قبائل رہائش پذیر ہیں، ایک روایت کے مطابق ان بلوچ قبائل کے جد امجد میر چاکر خان رند تھے، جن کی آخری آرام گاہ اوکاڑہ کے نواحی گاؤں ست گرہ میں ہے، میر چاکر ایک مدبر، بہادر اور جنگجو سردار تھا، کہتے ہیں کہ میر چاکر نے شیر شاہ سوری کے خلاف شہنشاہ ہمایوں کی حمایت کی تھی،جب شیر شاہ سوری،ہمایوں پر فتح یاب ہوا اور اس نے ہندوستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا،تو اُس نے میر چاکر کے خلاف بھی سخت اقدام اُٹھائے،لیکن انہیں مرعوب نہ کر سکا۔ہمایوں جب دوبارہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا،تو میر چاکر ایک بڑے بلوچ لشکر کے ساتھ ہمایوں کا ہمرکاب ہوا، اور معرکوں میں بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا،چنانچہ فتح دہلی کے بعد،ہمایوں اس بلوچ فوج کا شکر گزار ہوا،اور ان کی غضب شدہ جاگیریں اور اعزازات بحال کیے،گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اپنے اس بلوچ لیڈر میر چاکر کے مزار پرستگرہ میں حاضری دی تھی۔ دراصل بہادری اور علم پروری اس خطے کی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے،اگر آپ ماضی کے اوراق پلٹیں تو جان سکیں گے کہ اس خطے کا شرح خواندگی۔۔۔علاقے کے دیگر شہروں اور قصبوں کی نسبت ہمیشہ زیادہ اور بہتر رہا،جس کی بنا پر ماضی میں اسے یونانِ صغیرکے نام سے بھی موسوم کیا جاتا رہا۔ اس خطے کے لوگ بلوچگی اور سرائیکی لب و لہجہ اور زبان و بیان سے آراستہ ہونے کے سبب"Bilingual" یعنی دو لسانی قبائل کے طور پر معروف ہیں۔بلوچ چونکہ طبعاً آزاد منش ہوتے ہیں،اس لیے روایتی قبائلی نظام کی طرح،اپنے قبیلے کے سردار ہی کی وفامندی اور فرمان برداری کو اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔ان کی یہ قبائلی روایت،چونکہ از حد ٹھوس اور پائیدار ہے،اس لیے کسی اور کی اطاعت قبول کرنا،ان کے لیے از حد دشوار اور مشکل ہوتاہے،اسی لیے نوآبادیاتی عہد میں اس خطے کے لوگوں نے بطور خاص انگریز کے خلاف بھرپور مزاحمت کی،جس کی پاداش ان علاقوں کو گولہ و بارود کا نشانہ بنا نے کے ساتھ،بے سروسامانی اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی دھکیل دیا گیا،جس کے اثرات گذشتہ کچھ عرصہ پہلے تک محسوس کیے جا سکتے تھے،جس کے ازالے کے لیے موجودہ عہد کی کوششیں از حد لائق تحسین ہیں۔ تحصیل تونسہ مختلف بلوچ قبائل ہی سے آراستہ ہے، تاہم بزدار قبیلہ اس علاقے میں ایک’’لیڈنگ رول‘‘کا حامل رہا، ماضی قریب میں جس کے سردار،قبیلے کی سربراہی کے ساتھ علاقے کی خدمت اور عدالتی و انتظامی اختیارات و ذمہ داریوں کے بھی علمبردار رہے ۔ بہرحال سردار عثمان احمد خاں بُزدار چونکہ از خود بھی بلوچ سردار اور اپنے قبیلے کے چیف ہیں، اس لیے انہوں نے اس علاقائی اور قبائلی روایت کو نبھانے بلکہ ایک نئی جہت دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا،’’بلوچگی حال احوال‘‘کے اس سارے عمل میں وہ نہایت مطمئن ، پُرمسرت اور شاداں و فرحاں دیکھائی دیئے، اور یقینا ایک بلوچ سردار کو ایسا ہی ہونا چاہیے، بصورتِ دیگر تو وہ بھرے مجمع کو اپنی زیارت بخشتے،دور ہی سے ہاتھ فضاؤں میں لہراتے، کچھ رسمی کلمات کہتے اور اس سے پہلے کہ لوگوں کے دل میں اُن سے مصافحے اور معانقے کا خیال پیدا ہوتا، وہ کسی اور میٹنگ کے لیے وہاں سے روانہ ہو چکے ہوتے، ویسے ایک دفعہ تو ایسے ہی لگا کہ شاید وہ بھی عقبی دروازے سے تشریف لے جا چکے ہیں، لیکن جلد ہی یہ جان کر اطمینان ہو گیا کہ اس موقع پر تونسہ کے روحانی عمائدین بھی شریک ہیں، جس سے سلام و نیاز کے لیے از خود حاضری کو موزوں جانا گیا ہے ۔ خطّے میں جنوبی پنجاب کی اہمیت اور مرکزیت اگرچہ ہر دور میں مسلم رہی ، برصغیر کی اہم اور قدیم تجارتی شاہراہ جو ملتان سے آگے دہلی تک جاتی،انہی گذرگاہوں سے ہو کر آگے بڑھتی اور ایران وافغانستان سے ہو کر وسط ایشیا سے منسلک ہوتی، یہی علاقہ جہاں سے پاکستان کے چاروں صوبوں کے لیے راستے کھلتے اور شاہراہیں نکلتی ۔ لیکن وہاں کے خشک ، بنجر، بیابان اور بے آب و گیاہ علاقے کی محرومیوں کے بیان کے لیے’’پس ماندگی‘‘کی اصلاح کافی نہیں، کہ یہاں کے مکین بنیادی ضروریات سے بھی محروم چلے آ رہے تھے، یہاں کے عوام کی انہی محرومیوں اور پسماندگی کے ازالے کے لیے ، اس خطے کو علیحدہ صوبہ قرار دینے کا مطالبہ، بھی کئی دہائیوں پہ محیط ہے۔ بہرحال یہ سہرا موجودہ پنجاب حکومت کے سر ہے کہ جس نے کابینہ کے47ویں اجلاس میں ،’’جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ‘‘کو فعال بنانے کے لیے،رولز آف بزنس 2011ء میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے،جس کے تحت ساؤتھ پنجاب سیکرٹریٹ 3ڈویژن اور 11 اضلاع پر مشتمل ہو گا، جس میں بہاولنگر ، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، خانیوال ، لیہ ، لودھراں، ملتان ، مظفر گڑھ ، رحیم یار خان ، راجن پور اور وہاڑی کے اضلاع شامل ہوں گے۔