ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں اڑھائی ماہ قبل اغوا کئے گئے تین بچوں 9سالہ فیضان‘9سال علی اور 8سالہ سلمان کی نعشیں مل گئی ہیں جنہیں ملزموں نے زیادتی کے بعد قتل کیاہے۔ دو بچوں کی لاشیں اتنی مسخ شدہ ہیں کہ ان کی صرف ہڈیاں اور کھوپڑیاں ہی ملی سکی ہیںجبکہ اغوا ہونے والے چوتھے بچے عمران کی نعشیں ابھی تک نہیں مل سکی۔ زینب کیس کے بعد قصور کی تاریخ کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اڑھائی ماہ قبل اغوا کئے گئے ان بچوں کے والدین نے پولیس سے رابطہ بھی کیا تھا۔ اگر پولیس مستعدی سے کام لیتی تو شاید بچوں کا اتنا بھیانک قتل سامنے نہ آتا دیکھا جائے کہ یہ سراسر پولیس کی غفلت اور لاپروائی ہی ہے کہ بچے اس سفاکیت کا نشانہ بنے۔قتل کے بعد اب تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جا رہی ہے چہ معنی دارد؟کیابچے کبھی اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے؟ اب تو ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ تھانے کے ذمہ دار پولیس اہل کاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور ملزم خواہ ایک ہو یا زیادہ انہیں فوری طور پر گرفتار کر کے ان پر مقدمات چلائے جائیں ‘ ایسے ظالم قاتلوں کے خلاف تو صرف یہی استدعا کی جا سکتی ہے کہ ان سے کسی بھی رو رعایت اورنہ کی جائے مقدمہ کو طول دیئے بغیر اس کا فوری فیصلہ کر کے انہیں سرعام پھانسی دی جائے تاکہ آئندہ کسی سفاک کو معصوم بچوں سے زیادتی اور انہیں قتل کرنے کی جرات نہ ہو سکے اور بچوں کے والدین کے دلوں پر جو چھریاں چلائی گئی ہیں ان کا مداوا کیا جا سکے۔