احمد آباد سے متصل نرودا پاٹیہ میں ہوئے قتل عا م میں نچلی عدالت نے بی جے پی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے انھیں 28 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس معاملے میں بجرنگ دل کے بابو بجرنگی کو بھی قصوروار ٹھہرایا گیا تھا ۔جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوڈنانی نے بطور مقامی ممبر اسمبلی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ جب انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ نریندر مودی کی حکومت میں خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کی وزیر تھیں۔ اس معاملے میں موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مایا کوڈنانی کے حق میں گواہی دی تھی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے کوڈنانی کو ریاستی اسمبلی میں دیکھا تھا۔اس کیس کے 32 قصورواروں میں سے 18 کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا، جن میں کوڈنانی بھی شامل ہیں، جب کہ 13 افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سزا پانے والوں میں بابو بجرنگی بھی شامل ہیں تاہم ان کی عمر قید کی سزا کو کم کر کے 21 سال کر دیا گیا۔ شمالی گجرات کے پٹن ضلع کے سردار پورہ گاوٗں میں 33مسلمانوں نے ایک گھر میں پناہ لی تھی۔ فسادیوں نے اسکا گھیرائو کرکے اس میں بجلی کے ایک ننگے تار سے کرنٹ دوڑا دیا جس سے 29 افراد کی جائے حادثہ پر ہی موت ہو گئی۔ہجوم نے گاؤں کی تمام سڑکیں بند کر دیں تاکہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو اپنی جان بچانے کا موقع نہ ملے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم ( ایس آئی ٹی) کی تشکیل کی گئی اور 22 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔اس سے قبل کئی افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں دو سرکردہ افراد سرپنچ کچرا بھائی پٹیل اور سابق سرپنچ کنو بھائی پٹیل ملوث تھے اور ان دونوں کا مبینہ طور پر بی جے پی سے تعلق تھا۔ان فسادات کے ایک اہم گواہ ادریس وورا ، جس نے اپنی دادی، اپنی ماں اور اپنے ایک قریبی دوست کو کھو دیا تھا، صرف اسلئے بچ گئے کہ انہوں نے خود کو 10 گھنٹے سے زیادہ بیت الخلا میں بند رکھا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ حقیقت ہضم نہیں کر پاتے ہیں کہ سب کچھ تباہ کرنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 سال بھٹکنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا۔ اسی طرح مہسانہ کے وِس نگر کے دیپدا دروازہ علاقے میں 11 مسلمانوں کے قتل کے الزام میں پولیس نے 79 افراد کو گرفتار کیا تھا اور سبھی کو ضمانت دے دی گئی ۔ ا ن میں اب 61 لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے جن میں وس نگر کے سابق بی جے پی ممبر اسمبلی پرہلاد پٹیل اور میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے صدر داہیا بھائی پٹیل بھی شامل ہیں۔ان فسادات کے دوران تین برطانوی شہریوں اور ان کے ڈرائیور کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے عمران داؤد نامی شخص اپنے تین رشتہ داروں کے ساتھ گاڑی میں سفر رہے تھے۔ہجوم نے گاڑی کو روک کر ایک ہی جگہ پر دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ دو افراد جان بچا کر بھاگے لیکن ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں مار ڈالا۔ پولیس کی مدد سے عمران داؤد خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔ اس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا تھا لیکن ان سبھی کو نچلی عدالت میں رہا کر دیا گیا۔28 فروری 2002 کو چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے 69 افراد کو ہجوم نے قتل کر دیا۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ سوسائٹی میں 19 بنگلے اور 10 اپارٹمنٹس تھے۔ مقامی پولیس نے میگھانی نگر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرنے کے بعد 46 لوگوں کو گرفتار کیا۔ ایس آئی ٹی کی جانچ شروع ہونے کے بعد اس معاملے میں 28 دیگر کو گرفتار کیا گیا اور کل 12 چارج شیٹ داخل کی گئیں۔ کل ملزمان میں سے 24 کو سزا سنائی گئی جبکہ 39 کو بری کر دیا گیا۔اس قتل عام میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے والی 64 سالہ سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، شناخت ہونے کے بعد بھی انھیں ضمانت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اس کے مطابق ملزموں کی گرفتاری تیستا سیتلواڑ اور آر بی سری کمار جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے ہی ممکن ہوئی تھی۔ ہلاک ہونے سے چند منٹ قبل تک جعفری پولیس ، وزارت داخلہ کے افسران ، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر مسلسل فون کرنے مدد کی درخواست کررہے تھے۔ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور فسادیوں کا چھوٹنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق تو یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے20 کروڑمسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔ چونکہ کانگریسی دور میں سیکولرازم کا ملمع چڑھا ہوتا تھا، اسلئے فسادات کے بعد کوئی مرکزی وزیر یا حکمران پارٹی کا بڑا لیڈر دورہ پر آتا تھا۔ پہلے ہندو علاقوں میں جاکر ان کی پشت پناہی کرتااور پھر مسلم علاقے میں آکر اشک شوئی کرکے ریلیف بانٹ کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک لیکچر دے کر چلا جاتا تھا۔ اب نا م کیلئے بھی کوئی لیڈر مسلم علاقے کا رخ نہیں کرتا ہے۔مرکزی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے مستعفی ہونے کے بعد اب کوئی وزیر نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت والے 16 صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا 19.26 فیصد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔ بھارت میں صوبائی اسمبلیوں میں کل 4121 نشستیں ہیں۔ ان میں صرف 236 مسلمانوں اراکین ہیں۔کل 28صوبوں میں 530کے قریب وزراء ہیں۔ جن میں صرف 24 مسلمان ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ وزیر حال ہی میں بہار میں اسلئے شامل کئے گئے، کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اتحادی بی جے پی سے ناطہ توڑ کر سیکولر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ ملک ازسر نو حکومت تشکیل دی۔ یہ تو طے ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمائندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بھارت کی سیاست نے ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے اور ملک کو مستحکم نظام دینے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر سوال ہے کہ دو سو ملین افراد کو پس پشت ڈال کر اور انکو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور کسمپرسی کا احساس دلا کر کیا اس نظام کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے؟ بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کیلئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔