بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار کو گرفتار کر کے مسلمہ بین الاقوامی ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی کا ایک بار پھر ارتکاب کیا ہے۔ سفارتی اہلکار کو کئی گھنٹے حبس بے جا میں رکھنے کے دوران اس سے سادہ کاغذات پر دستخط کرائے گئے۔ پاکستان کی جانب سے اپنے اہلکار کی گرفتاری پر شدید احتجاج کے بعد بھارت نے سفارت کار کو رہا کر دیا۔ پاکستان نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بھارت پر واضح کیا ہے کہ وہ جواب کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے سفارتی اہلکاروں کو ہراساں کرنے‘ زدوکوب کرنے اور گرفتار کرنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ان واقعات کا خاص پس منظر رہا ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں نئی دہلی میں ایک پاکستانی سفارت کار کو ہراساں کرنے کے معاملے پر پاکستان نے ہائی کمشنر کو مشاورت کے لئے واپس وطن بلایا تھا۔ گزشتہ ایک برس کے دوران سفارتی عملے‘ ان کے اہل خانہ اور سکول جانے والے بچوں کی گاڑی کو روک کر انہیں خوفزدہ کیا گیا اور ان کی ویڈیو بنائی گئی۔ دوسرے واقعہ میں پاکستان کے نیول ایڈوائزر کا تعاقب کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے ستر برسوں کے تعلقات کشیدگی اور تنائو سے عبارت ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اچھی ہمسائیگی سے متعلق خوشگوار لمحات نایاب ہیں۔ دونوں ملک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر گولہ باری اور فائرنگ روز کا معمول بن چکی ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران بھارت نے دو ہزار بار ایل او سی پر جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں خرابی کی پہلی اینٹ تنازع کشمیر ہے۔1947ء میں جب برصغیر کی تمام ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں تو بھارت نے الحاق کے لئے درکار کسی ضابطے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد جیسی ریاستوں پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ وہاں حکمران بھلے مسلمان ہیں مگر عوام کی اکثریت ہندو ہے اور عوام بھارت سے الحاق چاہتے ہیں‘ کشمیر کا حکمران ہندو تھا۔ مہاراجہ نے آغاز میں قائد اعظم محمد علی جناح سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست کے عوام کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں گے مگر پنڈت نہرو اور ان کے رفقاء کی سازشوں کے باعث مہاراجہ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ بعدازاں یہ معاملہ جنگ کی شکل اختیارکر گیا۔ مجاہدین نے بھارتی افواج کو کشمیر کے بہت سے علاقے سے پسپا کر دیا۔ بھارت اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست لے کر گیا اور وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرائے گا اور کشمیری عوام جو فیصلہ کریں گے اس کا احترام کیا جائے گا۔ بھارت نے آج تک اس وعدے کو نبھایا نہ اقوام متحدہ کی قرار داد کا احترام کیا۔ اس تنازع پر جب سفارتی کوششیں طویل عرصہ تک بے نتیجہ رہتی ہیں تو ایک نئی جنگ جنم لیتی ہے جس کے ذریعے بھارت نئی سفارتی پوزیشن لینے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت میں شدت پسند گروہ مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کا استحصال کرتے ہیں۔ بھارت کا آئین اگرچہ سیکولر ہے اور اس میں تمام مذہبی‘ نسلی اور علاقائی گروپوں کو تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے مگر انیس سو نوے کے عشرے میں بابری مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک نے ہندو جنونیوں کو طاقت عطا کر دی۔ ان کی اقلیت اکثریت میں بدلنے لگی۔ انتہا پسندوں نے سماجی اداروں کو یرغمال بنانے کے بعد سیاسی اور حکومتی اداروں پر قبضہ کر کے ہندو توا کا ایجنڈہ نافذ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ بھارت میں برداشت اور رواداری کی موت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد بی جے پی کو پہلی بار وفاق میں اقتدار ملا۔ تب سے بھارتی سماج اور اس کے ادارں میں جنونی سوچ سرایت کرنے لگی۔ نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے تو وہاں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ تحقیقاتی اداروں نے مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ عالمی ادارں نے بھی مودوی کو قصاب اور سفاک قرار دیا۔ امریکہ نے ان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ بی جے پی کے اندر مزید گروہ بندی نے زیادہ سفاک اور انتہا پسند افراد کو ابھارا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں پر مظالم بڑھ گئے اور ہر معاملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانے لگا۔ بھارت میں دہشت گردی کے سینکڑوں مقامی اسباب موجود ہیں مگر ہر واقعہ کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا جاتاہے۔ برسوں سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بند کر رکھا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اعتماد سازی کے طور پر متعدد اقدامات کئے گئے مگر بھارت ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مذاکرات سے بھاگ جاتا ہے۔ عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بھارت نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقات کی حامی بھری مگر ایک دن بعد اس سے مکر گیا۔ پاکستان نے کرتار پور راہداری کھول کر بھارت کے سکھ یاتریوں کی بہت بڑی خواہش پوری کر دی۔ بھارت اس فیصلے کو بھی سازشی ذہن کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ نریندر مودی کہہ ہے ہیں کہ یہ علاقہ تقسیم کے وقت بھارت کو ملنا چاہیے تھا اور پاکستان نے اسے کھول کر 1947ء کی غلطی سدھارنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے وزیر آبی وسائل کے حالیہ بیان میں اعتراف کیا گیا ہے کہ بھارت نے جان بوجھ کرپاکستان کا دریائی پانی روکا۔ یہ اعتراف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر اپنا کردار ختم کر دے۔ اس کی ایک وجہ حالیہ برس ہونے والے انتخابات میں انتہا پسند ووٹروں کی توجہ حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔اسی لیے سفارتی کشیدگی پیدا کی جا رہی ہے۔