بھارت کی سیاسی افق پر ہندوقوم پرستی کا مکمل سایہ ہے۔ نریندر مودی کی حکومت بھارت کے ہر پہلو پرغلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔اس کے لئے سب سے پہلاکام مودی نے یہ کیاکہ اس نے بھارتی میڈیا کوموٹی رقوم دے کرخریدلیا ۔بھارت کاالیکٹرانک میڈیا مودی بناہواہے جبکہ پرنٹ میڈیایعنی اخبارت میںحکومت سے پوچھنے اوراسے آڑے ہاتھوں لینے پرمشتمل سوالات پرمبنی مضامین اور اداریے قطعی طورپر نظرنہیں آتے ۔بھارتی میڈیامودی کے ہاتھوںاس قدربک چکاہے کہ وہ مودی حکومت کے مفادکے تحت سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ بناکرپیش کرتاہے اورصبح وشام مودی کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہے۔ بھارت کی تمام بڑی میڈیا آرگنائزیشنز مودی اورمودی حکومت کے کاروباری اداروں کی مشترکہ ملکیت میں ہیں، جواپنے مخالف ٹی وی چینلز اور اخباروں کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔بھارتی صحافیوں کے لیے موجودہ سیاسی ماحول میں غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنا انتہائی ناممکن ہو چکا ہے۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جب میڈیا اپوزیشن کو ختم کرنے پر لگا ہوا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت سے سوال کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔بھارتی میڈیابھارتی اپوزیشن کو کمزورتربنانے کے لئے بھونڈی کوششوں میں مصروف ہے۔اقلیتوں کے خلاف حکومتی اقدامات کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے جب بھی کسی مزاحمت اور احتجاج کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تومودی کازرخریدبھارتی میڈیااسے درپردہ پاکستانی سازش قراردیتے ہوئے اپوزیشن کی آوازبلندہونے کے تمام راستے پہلے ہی مسدود کردیتاہے۔ٹی وی چینلوں پر ایسے بحث ومباحثے اور خبریں تقریبا بند ہو چکی ہیں جن میں حکومت پر نکتہ چینی کی جاتی ہو۔ بیشترپالیسیوں کی ناکامی کے باوجودبھارتی میڈیا مودی کی مقبولیت میں کمی نہیں آنے دیتا۔ٹی وی مباحث میں جب کوئی مہمان مودی کی کارکردگی اوراس کے موجودہ دورحکومت میں بھارتی اقلیت پرڈھائے جانے والے مظالم کوواشگاف کرنے کی کوشش کرتاہے تومیزبان اینکراسکی فوری طورزبان بندی کرنے کے لئے مودی کی مدح سرائی کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔یہ دراصل اس موٹے فنڈکی کرشمہ سازی ہے کہ جومودی سرکارکی طرف سے میڈیامالکان کو ادا کیا جاتاہے۔ لگ بھگ تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں میں ہیں جوسارے کے سارے مودی حکومت کے حامی ہیں۔اس طرح تقریبا سبھی چینلز حکومت نواز بن چکے ہیں اوراسی کے راگ الاپ رہے ہیں۔ جو چندچینلز اور اخبار ابھی تک اپنی اناکے باعث مودی حکومت کی تابعداری نہیں کر رہے وہ مختلف شکلوں میں دبائو میں ہیں۔شدیدترین دبائوکے باعث وہ مودی کی پالیسیوںکے حوالے سے خاموش ہیں کیوںکہ وہ مودی حکومت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے۔ مودی کے دورحکومت میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلت اورتمام اقلیتیں زیرعتاب ہیں۔ شمالی ہندوستان میں ہجومی تشدد کی دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی روز گزرتا ہو جب ہجومی تشدد اور حملے کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ مویشیوں اور بڑے جانورکے گوشت کے کاروبار پر رکاوٹ سے لاکھوں لوگ روزی روٹی سے محروم ہو چکے ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیز میں مسلمانوں کے لئے سیٹیں کم کی جا رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش سے لے کر راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور تمل ناڈو تک کسانوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ مودی کا بھارت ہرلحاظ سے روبہ زوال ہے اور اس کا زرعی نظام بھی سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔ ہر برس بارہ ہزار سے زیادہ کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔ لیکن مودی کازرخریدمیڈیا اس کے برعکس خبریں دیتا ہے کہ کسانوں کی زندگی بدل گئی ہے۔ معیشت سست پڑ چکی ہے۔ بھارت کاسب سے کامیاب شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی مشکلوں کی طرف بڑھ رہا ہے‘وہاں ہزاروں ملازمتیںہو رہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک کالم نگار نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت کے ایک بزنس مین نے انھیں بتایا کہ انھوں نے ایسی کتابیں آن لائن یا انٹرنیٹ سائٹ سے خریدنا بند کر دیا ہے جنھیں حکومت پسند نہیں کرتی۔انھیں خدشہ ہے کہ حکومت ایسی کتابیں خریدنے والوں پر نظر رکھ رہی ہے۔ کالم نگار نے ایک دیگر بزنس مین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر آپ کسی پارٹی میں جائیں اور وہاں بات چیت کے دوران حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کوئی بات کہہ دیں تو عین ممکن ہے کہ آئندہ روز آپ کے دفتر پر انکم ٹیکس کے اہلکار دستک دے رہے ہوں۔تاہم اب بھارت کے اندر سے ہی ہندو توا کے حامی میڈیا کو شدید تنقید کا سامنا ہے ۔بھارتی میڈیاکی تنگ سوچ اوراسکے تعصب اورسچ بولنے کی اجازت نہ دینے اورحالات وواقعات کی حقیقی تصویرنہ دکھانے کے باعث کئی میڈیاپرسنزکومیڈیاچینل چھوڑنے پڑے ۔بھارتی نیوز چینل اے بی پی سے وابستہ دو معروف صحافیوں نے حال ہی میں استعفے دے دیے۔ چینل چھوڑنے والوں میں چیف ایڈیٹر میلنڈ کھانڈیکر اور پنیا پراسون باجپائی شامل ہیں جو مشہور ٹی شو ماسٹر اسٹروک کے میزبان تھے۔ اس چینل نے ایک رپورٹ نشر کی تھی جس میں بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ایک گائوں کے رہائشی کی کہانی سنائی گئی تھی۔ اس شخص نے بتایا تھا کہ حکومتی اہلکاروں نے اسے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دیہاتیوں کے لیے شروع کردہ ایک اسکیم سے مستفید ہوئے تھے۔ اس رپورٹ کے بعد حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس ٹی وی چینل سے شدید ناراض ہوئی تھی۔اسی نیوز چینل نے نیوز اینکر ابھیشر شرما کو بھی اس لیے آف ایئر کر دیا تھا کیوں کہ انہوں نے چینل انتظامیہ کی جانب سے مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید نہ کرنے کی پالیسی کی خلاف ورزی کی تھی۔ بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملکی میڈیا اداروں کو جس دبائو کا اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارتی میڈیا انڈسٹری تیزی سے پروان چڑھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر کاروباری و سیاسی افراد کے دبا ئواور اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ برس کی بات ہے کہ بھارت کی ایک معروف ویب سائٹ ’’دی وائر‘‘نے بی جے پی کے صدر امت شاہ کے بیٹے کے کاروبار کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا کہ کس طرح ان کا کاروبار ایک مختصر عرصے میں پچاس ہزار روپے سے بڑھ کر 80 کروڑ روپے پر پہنچ گیا۔ ویب سائٹ کے خلاف 100 کروڑ روپے کے ہرجانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ایک عدالت نے ویب سائٹ کو اس معاملے میں کچھ لکھنے سے روک دیا ہے۔حال میں ایک اخبار کی مالک کی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد اخبار کے ایک سینیئر ایڈیٹر کو اخبار سے ہٹا دیا گیا۔ ان کا کالم عموما حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہوتا تھا۔ اب اسے بند کر دیا گیا ہے۔ اس اخبارکی ویب سائٹ سے ملک میں مذہب، ذات اور نسل کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والوں پر نظر رکھنے کے کے لیے ایک مائیکرو سائٹ بنائی گئی تھی۔ اب وہ بھی بند ہو گئی ہے۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے دفاتر پر ہندوستان کے تفتیشی ادارے سی بی آئی نے چھاپہ مارا تھا۔ اس چینل کو عموما غیر جانبدار مانا جاتا ہے۔ راجستھان کی حکومت نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے جس کی منظوری کے بعد صحافی سرکاری اہلکاروں، ارکان اسمبلی اور وزرا کے کسی مبینہ بدعنوانی یا بد انتطامی کے بارے میں حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیرنہیں لکھ سکیں گے۔اخبارات اور صحافی مسلسل دبائو میں ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی کالم نگارمیرا کامدار نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ انھیں ایک ایڈیٹر نے بتایا کہ ان کے سبھی فون ٹیپ کیے جا رہے ہیں۔واضح رہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی مخالفت سے زیادہ تر غیرجانب صحافی بھی کتراتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کئی صحافی اب موبائل پر انکرپٹڈ پیغامات کے لیے پروٹان میل استعمال کرتے ہیں۔ اہم پیغامات کے لیے فون کے بجائے وٹس ایپ کا استعمال ہو رہا ہے۔ صحافت کے لیے یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔