بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم عمران خان کو دہشت گردی کے خلاف مل کر چلنے کی پیشکش کی ہے۔ راجستھان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم منتخب ہونے پر عمران خان کو مبارکباد دی تھی۔ ناخواندگی ختم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا کہا تھا۔ عمران خان کے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ پٹھان کا بچہ ہوں۔ بات پر قائم رہوں گا۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اپنے الفاظ کا پاس رکھیں۔ نریندر مودی جلسہ عام سے مخاطب تھے اس لئے حتمی طور پر ان کے خیالات کے خلوص کو ماپنے کا کوئی معیار دستیاب نہیں تاہم وزیر اعظم عمران خان پہلے دن سے بھارت کو باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں اس لئے یہ فیصلہ بھی نریندر مودی کو خود کرنا ہے کہ وہ خطے کو جنگ اور کشیدگی سے محفوظ رکھنے کے لئے کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ ووٹروں کی تعداد کے لحاظ سے یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے مگر بی جے پی جیسی جماعت کا برسر اقتدار آنا ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے سیاسی نظام میں ایسے گروہ اور نظریات طاقت پکڑ چکے ہیں جو فکری اعتبار سے جمہوری نہیں بلکہ فاشسٹ سوچ رکھتے ہیں۔ جناب نریندر مودی نے اپنی شعلہ بیانی اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے خطے کو جنگ کے کنارے پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مسلسل یہ پیغامات دیتی رہی ہے کہ نئے عالمی حالات میں تنازعات کا حل جنگ سے نہیں بلکہ پرامن ذرائع سے برآمد کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ریاستیں ہیں۔ ایٹمی ہتھیار رکھنا اور پھر جنگ کے دوران ان کا استعمال ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ہتھیاروں اور عددی اعتبار سے بھارتی فوج کا حجم پاکستانی فوج سے کہیں بڑا ہے۔ پاکستان نے حجم کے اس فرق کو صلاحیت کے موازنے میں تول کر اپنا میزائل اور ایٹمی پروگرام ترتیب دیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جنگ کی صورت میں دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کر بیٹھیں۔ ایسا ہوا تو ڈیڑھ ارب کی آبادی ملیا میٹ ہو سکتی ہے۔ نہ کوئی عمارت بچے گی نہ ذی روح باقی رہے گا۔ دوسرا راستہ امن کا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دس برسوں کے دوران بھارت کو متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کی۔ ممبئی حملے کے فوری بعد پاکستان نے تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی مگر بھارت نے اس واقعہ کے ذریعے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز ثابت کرنے کی مہم شروع کر دی۔ شواہد کے نام پر پاکستان کو صرف الزامات کی فائل فراہم کی جاتی رہی۔ ان دس برسوں کے دوران جب کسی بیرونی سربراہ نے بھارت کا دورہ کیا مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر دبائو ڈالنے کا اہتمام ضرور کیا جاتا رہا کہ وہ ممبئی حملے کے ذمہ داروں کو سزا دے۔ چند سال قبل پٹھانکوٹ میں ایک کارروائی کا الزام لگایا گیا اور پھر ایک جعلی سرجیکل آپریشن کا دعویٰ کیا گیا۔ دو ہفتے قبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک کشمیری نوجوان عادل ڈار نے بھارتی سکیورٹی رضا کاروں کی گاڑی پر خودکش حملہ کر دیا۔ اس حملے میں 45کے لگ بھگ رضا کار ہلاک ہوئے۔ بھارت نے بلا تحقیق فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی حکومت اور اس کے زیر اثر میڈیا نے بھارتی عوام کو اشتعال دلانا شروع کر دیا۔ نریندر مودی جس ریاست راجستھان میں کھڑے ہو کر مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اسی ریاست کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں کو انتہا پسندوں نے مارا پیٹا اور انہیں پاکستان کے خلاف نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ بھارت کے دانشور اور حالات سے واقف حلقے کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی انتخابات سے قبل جنگ کا ماحول بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان دانشوروں کی رائے میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کا رویہ تباہ کن ہے جبکہ پاکستان نے سخت کشیدگی کے ماحول میں بھی تحمل کا مظاہرہ کر کے دنیا بھر میں معتبر حیثیت پائی ہے۔ نریندر مودی سے پہلے وزیر اعظم عمران خان اس بات پر فکر مندی کا اظہار کر چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی عوام کی مشکلات بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرے گی۔ عمران خان نے کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یاد دلایا تھا کہ بھارت میں کروڑوں افراد بے گھری اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں‘ پاکستان میں بھی کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت اگر فیصلہ کر لے کہ انہوں نے جنگ کی بجائے وسائل اپنے عوام کی بہبود اور معیار زندگی کو بلند کرنے پر خرچ کرنا ہیں تو پورا خطہ ترقی ‘ امن اور خوشحالی سے آسودہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے پلوامہ حملے کے بعد بھی بھارت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور ساتھ ہی واضح کیا کہ بھارت کو بلا ثبوت ایسے واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان نے فوراً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر مودی حکومت کی اشتعال انگیزی اور اس کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کیا۔عالمی برادری اس امر سے واقف ہے کہ بھارت کشمیری عوام پر جس طرح ظلم کر رہا ہے اس کا ردعمل بھی ضرور آئے گا۔نریندر مودی اگر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے تو انہیں مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی کے خاتمہ پر بھی بات کرنا ہو گی۔ بات چیت کے لئے یکطرفہ ایجنڈا کبھی کارآمد ثابت نہیں ہوتا لہٰذا نریندر مودی کو کشمیریوں پر حملے بند کرانے اور مذاکرات کا ٹائم فریم دے کر ماحول کو تنائو سے نکالنے پر توجہ دینا چاہیے۔