با خدا دیوانہ باش و با محمدؐہوشیار۔ ختم نبوتؐ کا معاملہ اتنا نازک اور حساس ہے کہ کچھ بولتے انسان اور کچھ لکھتے قلم کانپتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو رپورٹر کا جواب دیتے سنا تو طبیعت مکدّر ہوئی، کہا یہ کہ ’’چند انتہا پسند عاطف میاں کے تقرر کی مخالفت کر رہے ہیں کیا اقلیتوں کے پاکستان میں حقوق نہیں‘‘ سبحان اللہ! ختم نبوتؐ کے ایک منکر کا تقرر جائز اور کروڑوں مسلمان انتہا پسند؟ جب علامہ اقبالؒ نے قادیانیوں کو اسلام اور ہندوستان کے غدار قرار دیا تو جواہر لال نہرو نے تعجب ظاہر کیا۔ کہا ’’اقبالؒ جیسا عالی دماغ اور ایک مذہبی فرقے کے بارے میں اس قدر متشددانہ رائے‘‘۔ علامہ نے جوہر لال نہرو کو جواب دیا کہ آپ مقام نبوتؐ اور مسئلہ ختم نبوتؐ سے واقف ہیں نہ آپ کو ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمانوں کی وابستگی و شیفتگی کا ادراک ہے۔ پھر تفصیل سے سمجھایا کہ عامہ المسلمین اور قادیانیوں میں وجہ نزاع کیا ہے۔بھگوان داس، جسٹس اے آر کارنیلس کی مثالیں موجود ہیں جنہیں عدلیہ میں اعلیٰ ترین مناصب ملے اور کسی حافظ سعید اور خادم حسین رضوی تک نے ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ ایئر مارشل ظفر چودھری پاک فضائیہ کے سربراہ رہے اور ڈاکٹر عبدالسلام وزیر اعظم پاکستان کے مشیر مگر جونہی قادیانی پاکستان کی پارلیمنٹ سے غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خیر باد کہہ دیاجبکہ ظفر چودھری کو بھٹو صاحب نے ریاست کے بجائے ربوہ کی وفاداری نبھانے کی اطلاعات پر منصب سے الگ کیا۔ تب سے اب تک قادیانی اپنے آپ کو اقلیت مانتے ہیں نہ ووٹر لسٹوں میں نام درج کراتے اور نہ انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ دبائو ہمیشہ ڈالتے اور امریکہ و یورپ سے ڈلواتے ہیں کہ انہیں مسلمان مانا جائے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی پہلی کابینہ میں سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ مقرر کیا حالانکہ ریڈ کلف ایوارڈ میں قادیانی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ کمیونٹی ظاہر کر کے گورداس پور اور دیگر کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ اور کشمیر کی تحریک آزادی کو ناکام بنانے کی سازش میں اپنا کردار ادا کر چکے تھے مگر جونہی قائد اعظمؒ کی آنکھیں بند ہوئیں سر ظفر اللہ نے اس احسان کا بدلہ بانی پاکستان کی نماز جنازہ نہ پڑھ کر چکا دیا۔غیر مسلم سفیروں کے ساتھ بیٹھے رہے، پوچھا گیا تو بولے ’’یوں سمجھیے کہ میں ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیر ہوں یا غیر مسلم ریاست کا مسلمان وزیر‘‘۔ قائد اعظمؒ کی نماز جنازہ نہ پڑھنے والے شخص کا حوالہ دے کر فواد حسین چودھری نے عاطف میاں کے تقرر کا جواز پیش کیا۔ خدا نہ کرے کہ کسی موقع پر قوم کو اسی طرح کا جواب عاطف میاںسے سننا پڑے۔ امریکی شہری عاطف میاں بہت قابل ہوں گے لیکن کیا ان سے کسی نے پوچھا کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں جس میں ختم نبوتؐ کے منکر ین کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عاطف میاں نرے اکنامسٹ نہیں ایکٹوسٹ ہیں۔ دنیا بھر میں 1973ء کی چوتھی آئینی ترمیم ختم کرانے کے لیے سرگرم اور پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کا مشورہ دینے والوں میں پیش پیش۔ اپوزیشن کی طرف سے سینٹ میں پیش کی گئی تحریک التوا میں درج ہے کہ موصوف مرزا مسرور احمد کے اکنامک ایڈوائزر رہے اور انجمن خدام احمدیہ کے فعال رکن ہیں۔ ایک ایسے شخص کو جس کی وفاداری کا مرکز پاکستان کی ریاست نہیں، اکنامک کونسل کا رکن بنانا اور سرکاری رازوں میں شریک کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ یہ ضمانت کون دے گا کہ موصوف پاکستان میں بیٹھ کر امریکہ، یورپ کی خواہش کے مطابق 1973ء کے آئین کو سبوتاژ کرنے اور قادیانیوں کو ایک بار پھر مسلمان قرار دلوانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ اور علم و دانش استعمال نہیں کریں گے؟ بجا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل نہیں اکنامک کونسل کے رکن بنائے جا رہے ہیں مگر جو اقلیت پاکستان کو چھوڑ کر لندن اور تل ابیب میں خوش ہے اس کا ایک سپوت ایسی ریاست کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے دماغ سوزی کیوں کرے گا؟جس کو عمران خان مدینہ کی ریاست بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک آتش پرست کو اہم انتظامی معاملات سپرد کیے تھے مگر عہد صدیق ؓ میںمنکرین ختم نبوتؐ کے خلاف جہاد کے لیے لشکر روانہ کیا گیا۔ مسیلمہ کذاب نے ختم نبوتؐ کا انکار ہی تو کیا تھا۔ قادیانیوں کی آئینی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے آخری کوشش پچھلے سال حلف نامے میں ترمیم کے ذریعے ہوئی مگر حکومت کو اپنا تھوکا چاٹنا پڑا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو اس وقت عوامی جذبات و احساسات کا ادراک تھا، عمران خان گولڑہ شریف گئے اور انہوں نے مسلم لیگی حکومت کے خلاف علماء و مشائخ کی احتجاجی تحریک کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ چند روز قبل گستاخانہ خاکوں کے خلاف ان کے جرأت مندانہ مؤقف کو حب رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا آئینہ دار قرار دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم کے علاوہ امت مسلمہ کو سرخرو کیا۔ یہ تاثر پختہ ہوا کہ عمران خان واقعی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک ایسی آزاد، خود مختار اور خوددارمملکت بنانے کے لیے پرعزم ہیں جو اپنے شہریوں کو نہ صرف سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشی اور قانونی انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گی بلکہ مسلم اکثریت کے نظریات، عقائد اور جذبات و احساسات کی حفاظت کریگی۔ اگر قادیانی بھی دوسری اقلیتوں مثلاً ہندوئوں، سکھوں، مسیحیوں وغیرہ کی طرح آئین اور قانون کی پابندی کریں تو ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ حکومت کے علاوہ ہر مسلمان شہری کا فرض ہے اور انہیں ہر وہ منصب ملنا چاہئے جو آئین کے مطابق ان کا حق ہے۔ عاطف میاں صرف ایڈوائزری کونسل کے ممبر نہیں وزیر تک بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اقلیتوں کے کوٹے سے الیکشن لڑیں اور جماعت احمدیہ انہیں بشیرالدین خالد کی طرح دائرہ قادیانیت سے خارج نہ کر دے ‘لیکن اگر وہ سرظفر اللہ کی طرح ہمارے جنازے پڑھنے کے روادار ہوں نہ دکھ درد میں شریک اور نہ پاکستان کے آئین و قانونی کو تسلیم کر کے بطور ووٹر اپنا نام درج کرانے پر آمادہ، کسی اسمبلی تو کیا یونین کونسل کا الیکشن میں حصہ لینے کو گناہ سمجھیں تو کوئی غیرت مند پاکستانی محض امریکہ و یورپ اور عمران خان کے اردگرد موجودلنڈے کے لبرلز کی خوشنودی کے لیے انہیں اکنامک کونسل کا رکن کیوں تسلیم کرے؟ یہ انتہا پسندی ہے تو پاکستانی مسلمان انتہا پسند سہی، ہم کسی کی خوشنودی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات اور عقیدہ ختم نبوتؐ سے بے وفائی کے مرتکب ہوں؟ اپنی عاقبت خراب کریں؟معیشت ٹھیک کرنے کے چکر میں اپنی آخرت خراب کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔آج عاطف میاں کو برداشت کیا تو کل کو صدر اور وزیر اعظم کسی قادیانی کو بنانے کا مطالبہ ہو گا۔ جن لوگوں نے گزشتہ سال مسلم لیگی حکومت کو ختم نبوت کے معاملے میں الجھا کر اس حال تک پہنچایا کہ ارکان اسمبلی اور ووٹروں کے لیے اپنے حلقوں کا رخ کرنا مشکل ہو گیا، وہی شاید تحریک انصاف کی قیادت کو گمراہ کر رہے ہیں۔ عمران خان نے بروقت نوٹس نہ لیا اور دانش و بصیرت کے بجائے ضد و ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو یہ تاثر پختہ ہو گا کہ سابقہ کی طرح موجودہ حکومت بھی امریکہ و یورپ کو خوش اور مالیاتی بحران کو ختم کرنے کے لیے ایک اقلیت کی نازبرداری کر رہی ہے اور مسلم اکثریت کی مذہبی حساسیت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت اپوزیشن اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور تحریک لبیک و دیگر مذہبی جماعتیں بھی پیچھے نہیں رہیں گی، اپوزیشن اس حساس مذہبی معاملے پر جس کا تعلق عاشقان رسولؐ کے عقیدے اور جذبات سے ہے‘ احتجاجی لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ مدینہ منورہ میں ننگے پائوں چلنے والا عمران خان ایک خوش عقیدہ مسلمان اور عاشق رسولؐ انسان ہے مگر اس کے چند لبرل، سیکولر مشیروں اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض مہروں کو شاید معاملے کی حساسیت اور نزاکت کا احساس نہیں، یہ تیل کے ذخیرے میں تیلی پھینکنے کے مترادف ہے۔ قومی مفاد اور ملکی استحکام کا تقاضہ یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا علمبردار حکمران فی الفور یہ تقرر منسوخ کرے اور دنیا کو باور کرائے کہ پاکستان میں قادیانیوں سمیت ہر اقلیت کے حقوق محفوظ ہیں، کسی شہری کے ساتھ مذہب یا مسلک کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ لیکن اکثریت کے جذبات و احساسات کا تحفظ از بس لازم ہے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے لیکن تاج و تخت ختم نبوتؐ سے وفاداری ابدی ہے اور اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ کروں نام پہ تیرے جاں فدا،نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا،کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں