ہر خبر کار کے پاس اپنی خبر ہے۔ حقیقت میں کیا ہونے والا ہے‘ اس کا ٹھیک علم تو انہیں کو ہے جنہوں نے یہ کارگہ شیشہ گری سجائی ہے۔ چند دن پہلے آصف زرداری سے کسی نے پوچھا کہ پنجاب میں آپ کی پارٹی کے امیدوار ابھی تک سامنے نہیں آئے تو انہوں نے بات بظاہر مذاق میں ٹال دی لیکن جو فقرہ انہوں نے کہا وہ اپنی جگہ معنی خیز اور اشارہ نما تھا۔ فرمایا پنجاب میں جو تحریک انصاف کے امیدوار کھڑے ہیں‘ یہ میرے ہی تو ہیں۔ اس بظاہر مزاحیہ فقرے کا رشتہ سنجرانی ماڈل سے جوڑیے اور پھر زرداری کے اس بیان سے ملائیے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب میں آنے والی حکومت ہماری ہو گی تو معنی کی کڑیاں جڑ جاتی ہیں۔ بظاہر لیکن اصل نقشہ کیا ہو گا یہ تو نقشہ نویسوں ہی کو پتہ ہے یا پھر سیٹھ لوگ اندازے لگانے میں البتہ آزاد ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک بات جو سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ نقشہ ساز ہر صورت میں چودھری نثار کو قومی اسمبلی کا الیکشن جتوانا چاہتے ہیں ان کے مدمقابل قمر الاسلام کی گرفتاری یہ کہانی صاف کہے دیتی ہے ۔چند روز پہلے جب انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو ساتھ ہی نیب کا سرٹیفکیٹ بھی موجود تھا جس کے مطابق وہ نیب کو کسی کیس میں مطلوب نہیں ہیں۔ پھر جونہی انہیں مسلم لیگ کا ٹکٹ ملا تو سکینڈل حاضر ہو گیا۔ کسی ستم ظریف کا تبصرہ تھا کہ گاہک‘ موت اور وٹس ایپ پر پیغام کا کوئی وقت معین نہیں‘ کبھی بھی آ سکتا ہے۔ بظاہر اب تو چودھری نثار کی فتح یقینی ہے کہ قمر الاسلام جیل میں ہیں۔ پندرہ روز کا ریمانڈ مل گیا ختم ہونے پر توسیع فوری دستیاب ہو گی۔ وہ مہم نہیں چلا سکیں گے ان کی جگہ سنا ہے کہ ان کا بارہ سالہ بیٹا مہم چلائے گا۔ یہ بات البتہ چودھری نثار کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتی ہے جیتنے پر لوگ کیا کہیں گے؟ یہی کہ ایک بارہ سالہ بچے کو ہرا دیا اور بالفرض ہار گئے پھر تو بس کچھ نہ پوچھیے۔ ٭٭٭٭٭ چودھری نثار کا اسمبلی میں پہنچنا کیوں اتنا ضروری ہے کہ گویا نقشہ نویسوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کے بعد جو ’’ری پبلکن‘‘ پارٹی بنتی ہے‘ وہ ان کے بغیر نہیں بن سکتی۔ ری پبلکن انگریزی کا لفظ ہے اردو میں اس کا ترجمہ شاید محب وطن ہوتا ہے۔ الیکشن کے بعد جملہ محبان وطن بشمول سنجرانی ماڈل اور ارباب بنی گالہ کو ایک ہی چھتری تلے لانا ضروری ہے۔ سنا ہے کہ چھتری برداری کی ذمہ داری آصف زرداری کو دی جائے گی(بلکہ دی جا چکی ہے)۔ ٭٭٭٭٭ قمر الاسلام پہلے شکار ہیں ۔ایک اخباری گروپ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بیس سے پچیس امیدوار قومی اسمبلی ایسے ہیں جن کے نام نشان زدہ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے خلاف سکینڈل برآمد کرائے جائیں گے اور دھر لیے جائیں گے۔ کوئی چٹا پانی کیس میں تو کوئی کالا پانی کیس‘ کچھ کو عدم پتہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں ایک قدیمی اور کٹر مسلم لیگی سردار یعقوب ناصر بھی ان دنوں دبائو والے گرد باد کی زد میں آ گئے ہیں۔ ایسا سخت دبائو ہے کہ خود لیگی قیادت سے رابطہ کیا اور عرض کیا کہ میری وفاداری پر شک نہ کیا جائے لیکن دبائو بہت زیادہ ہے اس لیے مجھے اجازت دی جائے کہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ لوں۔ یعقوب ناصر جیسے مضبوط آدمی کے اعصاب یوں تڑخ سکتے ہیں تو دوسروں کا کیا کہیے۔ خیر‘ انتظار کرتے ہیں کہ یہ تیس پینتیس افراد جن کو نشان زد ہ کر لیا گیا ہے کون ہیں اور انہیں کیسے قابو کیا جائے گا ممکن ہے اصل فہرست اس سے بھی زیادہ ہو۔ ٭٭٭٭٭ خاں صاحب کو الہامات کا تسلسل بھی اپنی موعودہ ’’فتح‘‘ کا یقین نہیں دلا سکا چنانچہ فرمایا ہے کہ مسلم لیگ کو شکست دینے کے لیے وہ دوسری جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔ سیٹوں کی بہت بڑی تعداد پر تو وہ پہلے ہی الیکٹیبلز سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر چکے ہیں لیکن لگتا ہے مزید کی ضرورت ہے۔ گویا وہ سونامی جس پر کبھی انہیں بہت ناز ہوا کرتا تھا۔ ان کے کسی کام کا نہیں رہا۔ اب فتح و شکست کا انحصار ایڈجسٹمنٹ پر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دو روز پہلے تحریک نے کچھ دیگر ذرائع سے مل کر ایک اور سروے کرایا ہے اس کے نتائج کا علم بھی ہو گیا ہے لیکن یہاں لکھ دیے تو کوئی یقین نہیں کرے گا بس اشارہ کافی ہے۔ تحریک انصاف کے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی نے ایک ملاقات میں فرمایا لکھ لیجیے الیکشن نہیں ہوں گے ۔ پتہ نہیں یہ ان کی اطلاع تھی یا پر زور مطالبہ لیکن اخباری بیان ان کا بدستور یہی ہے کہ انتخابات میں شریف خاندان کا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا۔ سروے کے نتائج کیا تھے ان کا اندازہ ان کی نجی محفل میں کی جانے والی فرمائش سے کیا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ کچھ احباب کی بدظنی ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کے بی پلان میں کالا باغ ڈیم بنائو کی مہم بھی شامل ہے۔ بدظنی تو بدظنی ہی ہوتی ہے لیکن اسے تقویت تب ملتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ التوائیت کے علانیہ علمبردار برادران گجرات ہی نے اس مہم کے احیاء کا آغاز کیا تھا جس کے بعد دوسرے محبان وطن بھی اس جہاد میں شامل ہو گئے۔ کالا باغ ڈیم کے مفید یا نقصان دہ ہونے پر بحث عشروں سے جاری ہے اور قوی امید ہے کہ صدیوں جاری رہے گی لیکن اس بحث کا فائدہ کیا ہے؟ بات ایک فقرے میں پوری ہو سکتی ہے کہ حضور‘ یہ ڈیم کبھی نہیں بن سکتا اور دلیل اس دعوے کی ایسی ہے کہ کوئی تردید بھی نہیں کر سکتا۔ غور فرمائیے‘ اگر یہ ڈیم بن سکتا تو بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ دور میں ایک چھوڑ دو بار بنا چکا ہوتا اور اگر یہ ڈیم بن سکتا تو پاکستان کی تنصیبات ‘ ہوائی اڈے ‘ شاہراہیں اور ہزاروں شہری امریکہ کے حوالے کرنے اور اکبر بگٹی کو آسانی سے ملک عدم پہنچانے والا پرویز مشرف دو نہیں تو ڈیڑھ بار ضرور ہی بنا لیتا۔ کہانی کچھ یوں لگتی ہے کہ کالا باغ کے سبز باغ دکھاتے رہو اور کوئی دوسرا ڈیم نہ بننے دو۔ اللہ بھلا کرے۔