غالب نے غالباً نہایت سادگی میں یہ شعر کہہ دیا تھا کہ: بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آ گے ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آ گے تماشا گاہ دنیا کو بازیچہ اطفال کی تشبیہ دینا۔ سادگی نہیں تو اور کیا ہے۔ دنیا کی سٹیج پر جو تماشا شب و روز ہمارے سامنے ہو رہا ہے وہ کسی طور بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ بچوں کے کھیل میں تو معصومیت ‘ سادگی‘ بھولپن اور بے ساختہ پن کی خوبصورتی ہوتی ہے جبکہ تماشا گاہ عالم میں چالا کی و عیاری سے ترتیب دیے ہوئے ایک کے بعد دوسرا منظر ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے اور کچھ انداز میں کہ ہمیں اس کے جھوٹ پر سچ کا گمان ہوتا ہے۔ ہم فریب کو سچائی سمجھ بیٹھتے ہیں، سیاست سے لے کر طرز معاشرت کے ہر زاویے کو پرکھ لیں، یہ جھوٹ‘ فریب‘ عیاری و چالاکی کی ہزار داستان ہے۔!!سیاست سے لے کر طرز معاشرت تک انسانی زندگی کا کوئی پہلودیکھ لیں، ہم کسی نہ کسی بدترین فریب کا شکار ہیں۔ اپنی ذاتی زندگیوں سے لے کر اجتماعی زندگیوں تک قومی سطح سے عالمی تناظر تک سب جھوٹ‘ فریب اور عیاری کا کھیل ہے بابا! یہاں امن کے نام پر جنگوں کی سودا گری(war mongering)کی جاتی ہے اسلحہ بنانے والی انڈسٹریز لابنگ کرتی ہیں۔امن کے نام پر پرامن بستیوں کو جنگوں میں جھونک دیا جاتا ۔ عراق وار میں کروڑوں ڈالرکے مہلک ہتھیار استعمال کرنے کے لئے جنگ مسلط کر دی گئی اور اس جنگ کا جواز بنانے کے لئے ایک پر فریب اصطلاح WMDگھڑی گئی یعنی Weapons of mass destruction۔کہا گیا کہ عراق میں ہولناک تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ WMDکا جھوٹ اس تواتر سے بولا گیا کہ دنیا اس پر یقین کرنے لگی۔ لیکن جو قوتیں یہ جھوٹ بول رہی تھیں وہ جانتی تھیں کہ وہ دنیا کو ایک مہلک جھوٹ کے فریب میں پھنسا رہی ہیں۔ آج کی یہ کارپوریٹ دنیا ایسے ہی مہلک اور بدترین جھوٹ کے سہارے ترقی کا سفر طے کر رہی ہے ۔ایک جھوٹ نہیں ،کئی ہزار جھوٹ ہیں۔ ہماری زندگیاں ایسے نامحسوس ہونے والے، نظر نہ آنے والے بے شمار جھوٹوں نے بری طرح یرغمال بنا لی ہیں۔ آج کی کارپوریٹ دنیا مارکیٹنگ کے سہارے پر قائم ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ آج کی اس دنیا میں مارکیٹنگ اور کاروبار میں سب جائز ہو چکا ہے۔ کیا آپ کو یقین آئے گا کہ دوائیاں بنانے والی عالمی کمپنیاں کئی نئی پروڈکٹ کو لوگوں میں بیچنے سے دس سال پہلے ایک نئی بیماری ایجاد کر کے اس کے خوف کی مارکیٹنگ کرتی ہیں اور یہ جھوٹ اتنا بولا جاتا ہے کہ لوگوں کو اس پر یقین آ جاتا ہے۔ فارما سوٹیکل کمپنیوں کا یہ ہولناک کاروبار ان کی اپنی اصطلاح میں Disease Mongeringکہلاتا ہے، یعنی بیماریوں کی سوداگری ۔دوا کو ان کی اصطلاح میں ڈرگ کہا جاتا ہے کسی بھی ڈرگ کو بغیر وجہ کے مارکیٹ میں نہیں بیچا جا سکتا ہے لیکن بیماریاں فروخت کرنے پر تو یقینا کوئی پابندی نہیں ہے۔ ادویہ ساز کمپنیاںدوائوں کو بنانے سے زیادہ پیسہ اس بات پر لگا رہی ہیں کہ صحت مند لوگوں کو اس بات کا یقین دلا دیا جائے کہ وہ بیمار ہیں یا پھر سماج میں یہ نت نئی بیماریوں کا خوف اس طرح پھیلا دیا جائے کہ ہر صحت مند شخص اس خوف میں مبتلا ہو جائے کہ وہ کسی نہ کسی جان لیوا مہلک مرض کا شکار ہونے والا ہے ،جلد یا بدیر اسے کوئی بیماری ضرور لگنے والی ہے۔ اس خدشے اور خوف کے ساتھ بیماریوں کے ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کا کاروبار جڑا ہوا ہے۔ دوائیں بنانے والی کمپنیاں ڈاکٹرز اور ٹیسٹ کرنے والا لیبارٹریاں یہ سب اس پر فریب کھیل کا حصہ ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہی کہ بیماری کی صورت میں علاج نہ ہو۔ صرف یہ کہنا چا رہی ہوں کہ اس گیم کے ایک پلیئر کے طور پر ڈاکٹر صاحبان ایک بیماری کے لئے غیر ضروری دوائیں تجویز کر کے مریض کے پورے مدافعتی نظام کو بیڑا غرق کر دیتے ہیں اور اسے کئی دوسری بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور پھر ان کا علاج کرواتے کرواتے اس کی باقی ماندہ عمر گزر جاتی ہے۔ حال ہی میں معدے کے امراض کی عام سی دوا Zanticکے بارے میں یہ ہوشربا انکشاف آیا کہ یہ بظاہر عام سی دوا لوگوں کو کینسرکے مہلک مرض میں مبتلا کر رہی ہے۔ یہ دوا ہر گلی محلے کے کونے پر بیٹھا فزیشن بھی مریضوں کو دے رہا ہے۔ یہاں ہر دوسرا شخص معدے کے کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے اور زینٹک دوا ہمارے ہاں بے تحاشا فروخت ہوئی۔ ہمارے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کو بھی اس کا نام پتہ ہے کیونکہ وہ بھی سال ہا سال سے یہ دوا وقتاً فوقتاً کھاتی رہی ہے۔ کیا اس سے زیادہ ہولناک فریب ہو سکتا ہے کہ صحت اور تندرستی کے نام پر دوا کھانے والے مریض معمولی بیماری سے مہلک اور بڑی بیماریوں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں اور ان کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ پھر بڑی بیماریوں کا علاج کرواتے ہوئے کئی اور طرح کے عارضے ان کی جان کو لاحق ہو جاتے ہیں۔ فارما سوٹیکل کمپنیوں اور ڈاکٹروں کا کاروبار مگر خوب چلتا ہے۔ میر نے تو نہ جانے کس کیفیت میں کہا ہو گا مگر یہ شعر صرف ۔صرف اس صورت حال میں فٹ بیٹھتا ہے: میرکیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں ایک ریسرچ پیپر ہے جس میں ہوشربا انکشافات دیے گئے ہیں کہ کیسے فارما سوٹیکل کمپنیاں، میڈیا ہائوسز، مارکیٹنگ اور ڈاکٹرز کے گٹھ جوڑ سے بیماریوں کو سپانسر کرتی ہیں اور لوگ صحت کے نام پر بیماریاں خریدتے ہیں۔وارمونگرز امن کے نام پر بدامنی اور جنگیں مسلط کرتے ہیں تو بیماریوں کی سوداگری کرنے والی صحت کے نام پر صحت مند انسان کو مریض بنا دینا چاہتے ہیں۔