پاکستان میں مقتدرہ کی سیاسی طاقت کو بلاوجہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ریاستی ادارے نہ ہوئے کوئی آسمانی طاقت ہوگئے کہ وہ جو چاہیں کرگزریں۔ ہر چیز ان کے کنٹرول میں ہے۔ بہت ہی فضول ‘ بے بنیاد بات ہے کہ وہ سیاسی جماعتو ں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عدلیہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اِن دنوں کہا جارہا ہے کہ ادارے نیوٹرل یعنی ’غیر جانبدار‘ ہوگئے ہیں۔ اقتدار کی کشمکش میں نہ وہ حکومت کی مدد کررہے ہیں نہ اپوزیشن کی۔وہ تو پہلے بھی غیرجانبدار ہی تھے۔ یہ کونسی نئی بات ہے۔ اپوزیشن قائدین غلط طور پر الزام لگاتے رہے کہ عمران خان کی حکومت مقتدرہ کی مدد سے تشکیل پائی تھی اور اسی کی مدد سے چلتی رہی۔ جب اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو وزیراعظم عمران خان کے نیچے سے زمین سرکنے لگی۔حکمران جماعت کے بہت سے ارکان اسمبلی ان سے ناراضگی کا کھلم کھلا اظہار کرنے لگے۔ حزب اختلاف سے جاملے۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ریاستی ادارے سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتے۔ مقتدرہ کے قائدین جو کام کررہے ہیں وہ خالصتاً قومی مفاد میں ہے۔ اس میں ان کے ذاتی مفادات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ریاستی اداروں کے قائدین’ لوٹے‘ سیاستدانوں کی طرح نہیں جو لین دین کرکے وفاداریاں بدل لیتے ہیں۔ نہ کوئی فیصلہ کسی بیرونی سپر پاور کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ کوئی دوسرا ملک ہماری ریاست پر بھلا کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے۔وطن عزیز کے بدخواہ بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ کنفیوز ہوجائیں۔ یہی پانچویں درجہ کی جنگ یا ففتھ جنریش وارفئیر ہے کہ لوگوں کو ریاست سے بدگمان کیا جائے۔ بعض لوگ یہ سازشی تھیوری پیش کرتے ہیں کہ مقتدرہ کی ایک اہم ترین شخصیت عمران خان سے ان کی حکومت آنے کے ایک سال بعد ہی نامطمئن ہوگئی تھی۔ پہلااہم اختلاف احتساب کے عمل پر ہوا۔ اپوزیشن چاہتی تھی کہ وزیراعظم عمران خان پارلیمان کے ذریعے نیب کے قانون میں ترمیم کردیں یا اسے ختم کردیں تاکہ حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں کی اپنے خلاف مقدمات سے مستقل جان چھوٹ جائے۔لیکن عمران خان راضی نہ ہوئے بلکہ بار بار کہتے رہے کہ ’میں این آر او نہیں دوں گا۔‘ ریاستی ادارے سیاستدانوں کے احتساب کے خلاف تھے کیونکہ اس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہورہی تھی۔مقتدرہ چاہتی تھی کہ عمران خان احتساب پر زور دینے کی بجائے خراب معاشی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ ملک کی معاشی ترقی کی شرح کو تیز کریں۔ لیکن کپتان راضی نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے مشیر شہزاد اکبر کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات زور شور سے آگے بڑھانے شروع کردیے۔ آپ یہ بھونڈے الزامات بھی ملاحظہ کیجیے۔ مقتدرہ اور اپوزیشن رہنماؤں اور ان کے نمائندوں کے درمیان پس پردہ مذاکرات ہوئے۔ طے پایا کہ کسی بھی سیاستدان کو بدعنوانی کے جرم میں سزا نہیں ہوگی۔اس کے بدلہ میں اپوزیشن کے قائدین پاک فوج پر تنقید کرنا بند کردے گی۔تفتیشی اداروں نے اہم کرپشن مقدمات کی پیروی کرنے کا عمل سست کردیا۔افسوس کی بات ہے کہ یہ کہا جائے کہ ججوں نے جان بوجھ کر کرپشن کے مقدمات کی رفتارِسماعت آہستہ کردی۔ مقدمے تقریباً منجمد ہوگئے۔ضمانتیں ملنا آسان ہوگیا۔ حتیٰ کہ منشیات کا کام کرنے ایسے سنگین جرم میں بھی ایک سیاستدان کے خلاف ساڑھے تین سال تک فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ درحقیقت ‘ہمارا قانونی نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں اس قسم کی تاخیر ہوجاتی ہے۔ محض اتفاق کی بات ہے کہ اپوزیشن نے مقتدرہ کے خلاف زبان درازی کرنا چھوڑ دیا۔شریف خاندان کے رویہ میں بھی بتدریج تبدیلی آگئی۔شہباز شریف ہمیشہ سے مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کے ہامی ہیں۔مسلم لیگ (ن)میں اُن کا نقطہ نظر غالب آگیا۔ پارٹی نے ’ووٹ کو عزت دو‘ـ کا نعرہ ترک کردیا۔ان سازشی نظریات کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ محض رطب و یابس ہیں۔ اکتوبر دو ہزار انیس میں مولانا فضل الرحمان اپنے کارکنوں کا جم ِغفیر لے کر اسلام آباد پہنچ گئے اور کئی روز وہاں براجمان رہے۔ ایک دن اچانک انہوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹا اورمنتشر ہوگئے۔ اتفاق سے انہی دنوں جنرل باجوہ کی آرمی چیف کے طور پرتین سالہ مدتِ ملازمت مکمل ہونے جارہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے انہیںخوشی خوشی مزید تین برس کی توسیع دے دی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اس توسیع کو قانونی شکل دینے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر پارلیمان سے بل منظور کروالیا۔ یہ واحد موقع تھا جب کسی معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوںمیں اتفاق رائے نظر آیا۔ کیوں نہ ہوتا۔ آخر کو قومی سلامتی کا اہم معاملہ تھا۔ جنرل باجوہ جب امریکہ تشریف لے گئے تھے پینٹاگون نے ان کی بہت تکریم کی۔ اکیس توپوں کی سلامی دی۔ وہ پاکستانی قوم کا قیمتی ‘ بے بدل سرمایہ ہیں۔ انہوں نے پاک فوج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کیا ۔ افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے اور طالبان کے حکومت میں آنے کے عمل کو کامیابی سے نپٹایا۔ بالاکوٹ واقعہ کے بعد انڈیا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مزید سازشی نظریے دیکھیے ۔ یار لوگ اپنی قوت متخیلہ سے کیسی کیسی تھیوریاںبناتے رہتے ہیں۔ ـعمران خان نے گزشتہ عام انتخابات میں مقتدرہ کی سفارش پر کثیر تعداد میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ دیے تھے۔ یہ مقامی سیاستدان عمران خان سے زیادہ ریاستی اداروں کے ساتھ ہیں۔ منصوبہ تھا کہ سال دو ہزار بیس کے اوائل میں یہ تیس پینتیس ارکان پی ٹی آئی سے بغاوت کا اعلان کردیں گے اور اپوزیشن سے جا ملیں گے۔ آجکل ہم پی ٹی آئی میں جو بغاوت دیکھ رہے ہیں یہ پرانا پلان ہے جو دو برس کی تاخیر سے رُو بہ عمل آیا ہے۔ دو سال پہلے کورونا وبا پھیل گئی تھی اور مشکل حالات میں کوئی نئی حکومت بنانے پر راضی نہ ہوا۔ عمران خان بچ گئے۔ بعض لوگ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ ریاستی ادارے چاہتے تھے کہ وزیراعظم عمران خان پنجاب میں عثمان بزدار کی جگہ کسی اور شخص کو وزیراعلیٰ بنائیں کیونکہ بزدار کی انتظامی صلاحیتیں کمزور تھیں لیکن وزیراعظم نہیں مانے۔ اسی طرح مقتدرہ وزیراعظم عمران خان کومشورہ دیتی رہی کہ وہ اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرکے اسے بہتر بنائیں لیکن انہوں نے سُنی ا ن سُنی کردی۔ ریاستی ادارے عمران خان کی امریکہ پالیسی پر بھی ان سے خوش نہیں۔وزیراعظم نے امریکہ کو اڈّے دینے کے سوال پر ایک انٹرویو میں’ قطعاً نہیں‘ کہہ دیا جو واشنگٹن کے حکمرانوں کو بُرا لگا۔کچھ دنوں پہلے وزیراعظم ماسکو کے دورہ پر چلے گئے۔انکل سام کو مزید ناراض کردیا۔ ان سب فضول باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست تو عمران خان کے دلیرانہ موقف پر نازاں ہے۔ ہماری مقتدرہ تمام جدید ترین اسلحہ اور ہتھیار چین سے خریدتی ہے۔ اس کا امریکہ سے کیا لینا دینا۔ قومی خود مختاری اور آزادانہ خارجہ پالیسی ہماری ریاست کا ہمیشہ سے طرّۂ امتیاز ہے۔ ہم یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہمارے ریاستی ادارے کسی امریکہ نواز سیاسی سیٹ اپ کے لیے راہ ہموارکریں گے؟مقتدرہ دانا و بینا‘ قوم پرست لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔سیاستدان اپنی لڑائی میں اسے نہ گھسیٹیں ۔