ان دنوں ہر جگہ مولانا کے آزادی مارچ کا چرچا ہے۔ کئی چینلز پر ہلچل مچی ہے۔ حکومتی ایوانوں میں بھی کچھ نہ کچھ مچا ہوا ہے۔ کیا مچا ہوا ہے ٹھیک سے پتہ نہیں۔ شیخ جی بتا سکتے ہیں لیکن وہ خود الجھے الجھے نظر آتے ہیں۔ ایک دن ایک سانس میں فرمایا کہ مولویوں سے معاملات طے ہو گئے ہیں‘ دھرنا نہیں ہو گا‘ پھر دوسری سانس میں فرمایا کہ مولانا دھرنا مت دیں‘ اسلام آباد پنڈی میں بہت ڈینگی ہے‘ انہیں کاٹ لے گا۔ یعنی اگر معاملات طے ہو چکے ہیں اور دھرنا نہیں ہو گا تو پھر مچھر سے ڈرانے کی کیا ضرورت تھی۔ کہیں شیخ جی نادانستگی میں یہ خبر تو لیک نہیں کر گئے کہ پنڈی اور اسلام آباد میں یہ جو ڈینگی ضرورت سے زیادہ پھیلا ہوا ہے تو یہ دھرنا روکنے کا ’’پری ایمپٹو‘‘ اقدام تھا؟ خیر‘ خیال آ رہا ہے کہ کئی مہینے تک مولانا شہر شہر لانگ مارچ کرتے رہے۔ ہر مارچ میں لاکھ سے زیادہ افراد تھے لیکن ٹی وی پر ان کا بلیک آئوٹ تھا۔ اخبارات میں ان کے اتنے بڑے جلوسوں کو صرف دو کالمی خبر کی جگہ ملتی۔ صرف خبر کی‘ بعض اخبارات البتہ ڈاک ٹکٹ سائز کی تصویر بھی چھاپ دیتے۔ ایک قسم کی شعوری یا ماورائے شعوری کوشش تھی کہ عوام کو پتہ نہ چلے‘ مارچ کتنے بڑے بڑے ہو رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ ہر مارچ کی تصویر دیکھ لیتے تھے۔ پاکستاکی تاریخ میں اتنے بڑے بڑے جلوس جلسے کسی کے نہیں ہوتے۔ یہ اپنی جگہ حیرت کی بات تھی اور کبھی جلسے جلوسوں کا میڈیا میں ایسا بلیک آئوٹ بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ اپنی جگہ حیرت کی دوسری بات تھی۔ ٭٭٭٭٭ اسے الٹی ہو گئی سب تدبیروں سے تعبیر کر لیجئے یا کسی اور بات سے کہ جسے چھپانے یا جس سے چھپنے کی کوشش کی جا رہی تھی‘ آج وہی ماجرا فوکس میں ہے۔ حکومت کا موڈ اس کے رہنمائوں کے بیانات سے جھلکتا ہے اور وہ یہ کہ دھرنا روکا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پختونخواہ کہتے ہیں کہ مولانا کی ریلی کو صوبے سے گزرنے کی اجازت نہیں دوں گا‘ یہ میرا وعدہ ہے۔ محمود خان وعدے کے بڑے پکے ہیں‘ بی آر ٹی بی پر اپنا وعدہ نبھا چکے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ کا فرمان ہے کہ پنجاب حکومت دھرنے کو روک لے گی ورنہ اسلام آباد تو ریڈ زون ہے ہی جہاں پہلی لائن پولیس کی‘ آخری فوج کی ہے۔ وزیر داخلہ اس سے پہلے اپوزیشن کو سبق سکھانے کا وعدہ اور دعویٰ کر چکے ہیں جسے پورا کرنے کی ذمہ داری نیب والے جاوید اقبال نبھا رہے ہیں۔ ایک وزیر صاحب کا وعدہ ہے کہ مولانا کو ایسے بٹھائیں گے کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکیں گے۔ یہ وزیر بھی وعدے کے بڑے پکے ہیں۔ چار پانچ ماہ ہوئے ہیں‘ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگلے چند ہفتوں میں اتنی لاکھوں کروڑوں نوکریاں پیدا ہونے والی ہیں کہ لوگ کم پڑ جائیں گے‘ نوکریاں سرپلس ہو جائیں گی۔ یہ وعدہ بھی حرف بحرف پورا ہوا‘ دس لاکھ نوکریاں تادم تحریر سرپلس ہو چکیں مزید دس لاکھ ہونے کو ہیں۔ ٭٭٭٭٭ دھرنے کی حمایت تو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے کر دی ہے لیکن وہ اس میں شرکت نہیں کریں گی۔ مسلم لیگ نے کہا ہے کہ اسے درد کمر ہے۔ مسلم لیگ چند ماہ پہلے لندن گئی تھی اور کمر درد کا کامیاب علاج بھی کرایا تھا لیکن دھرنے کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی یہ نامراد درد لوٹ آیا چنانچہ اس نے طبی وجوہات کی بنا پر دھرنے میں شرکت سے معذرت کر لی ہے اور مولانا نے شاید قبول بھی فرما لی ہے۔ پیپلز پارٹی کی معذرت کی وجہ جوتش سے متعلق ہے۔ اس نے دھرنے کے لئے جو مہورت نکلوائی ہے اس میںشبھ گھڑی مارچ کی آئی ہے۔ یعنی پانچ مہینے بعد کی۔ سنا ہے دونوں کے کارکن البتہ آئیں گے، ٭٭٭٭٭ دھرنے کو کوریج ملے گی؟ بظاہر جواب نفی میں ہے۔ زیادہ تر ٹی وی چینلز اس وقت کرکٹ کے میچ یا کوفتے بنانے کی ترکیبیں نشر کریں گے اور جنرل اسمبلی والی تاریخ ساز تقریر کی ریکارڈنگ چلائیں گے۔’’کمرشلی‘‘ بھی دھرنا دکھانا شاید فائدہ مند نہ ہو۔ وہ رنگ برنگ کے مزے دار مسالے اس دھرنے میں کہاں ہوں گے جو خاں صاحب کے دھرنے میں تھے۔ ایسا کوئی مستانہ گیت کہاں بجے گا کہ ع مولانا دے دھرنے وچہ اج میرا نچنے نوں دل کردا وہ کیفیت بھی خارج از امکان ہے کہ رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔ بانکیاں نہیں ہوں گی توفیشن ایبل بانکے بھی نہیں آئیں گے۔ بے کیف ‘ بے مزا دھرنا دیکھنے کون ٹی وی کے سامنے بیٹھے گا۔ ٭٭٭٭٭ وہ محب وطن اور صادق و امین تجزیہ نگار جو 2014ء کے دھرنوں کی ایمان افروز تائید کرتے تھے اب یکایک دھرنوں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کل ہی ان صاحب کو سنا جو تب جمہوریت کی نحوستیں اتنے مدلل انداز میں دیتے اور دھرنے کے کامیاب ہونے کی یقینی پیش گوئی اس ایمان کامل کے ساتھ بیان فرماتے کہ رقت اور جوش اکٹھے ہی طاری ہو جاتے۔ بعد میں ان صاحب کی خدمات جمیلہ و جلیلہ کے عوض پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ دے دی گئی۔ انہوں نے بھی رات گئے لیگی کارکنوں کے گھروں پر کھڑکی توڑ دیوار پھوڑ آپریشن کر کے حق اعتماد ادا کر دیا۔ چنانچہ رات یہ صاحب فرما رہے تھے‘ دھرنے دینا غیر جمہوری فعل ہے۔ معلوم ہوا ‘ الیکٹیڈ حکومت کے خلاف دھرنا فرض‘ سلیکٹیڈ کے خلاف حرام ہے۔ فکر و عمل کی یکسوئی اسی کو کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لئے حکومت نے دانشمندانہ قدم اٹھایا ہے جس کی تعریف نہ کرنا خلاف انصاف ہو گا۔ ڈینگی کے ٹیسٹ کا نرخ حکومت نے 90روپے سے بڑھا کر 850روپے کر دیا ہے یعنی لگ بھگ آٹھ سو روپے کا اضافہ۔ ڈینگی جس تیزی سے پھیل رہا ہے‘ لگتا ہے سارا مالیاتی خسارہ اسی ایک ٹیسٹ کی مد سے پورا کر لیا جائے گا۔