پتہ نہیں ہمیں کیا بے چینی لاحق ہے کہ کسی نہ کسی بہانے ہر وقت حکومت کی تبدیلی کے لیے سرگرداںو کوشاںرہتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ کون سا کیڑا ہے جو ہمیں چین نہیں لینے دیتا؟ پاکستان دنیا کا ایک انوکھا ملک ہے جہاں حکومت بنتے ہی اسے رخصت کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔فتنہ پروری‘ فتنہ انگیزی کایہ ایسا کلچر ہے جواس ملک کو پنپنے نہیں دیتا۔ جیسے ہی کوئی منتخب حکومت وجود میں آتی ہے اپوزیشن کے سیاستدان چند ماہ بعد ہی حکومت جانے کی افواہیں پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ حکومت چونکہ ان کی نظر میں صحیح کام نہیں کررہی اس لیے اسے جلد سے جلد گھر بھیج دینا چاہیے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ کرپشن بہت زیادہ ہے‘ کبھی چرچا کیا جاتا ہے کہ حکومت دفاعی اور خارجہ محاذ پر رسک بن چکی ہے‘ کبھی الزام لگایا جاتا ہے حکومت سے معیشت نہیں چل رہی۔حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے۔ غرض منتخب حکومت کومقررہ دستوری مدت سے پہلے گھر بھیجنا سب سے بڑا سیاسی مقصد ٹھہرتا ہے۔عوام کے مسائل جائیں بھاڑ میں۔ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو نناوے تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)دونوں اقتدار کا میوزیکل چیئرز کھیلتی رہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے ریاستی اداروں کے ساتھ ملکر ایک دوسرے کوحکومت کی آئینی مدت مکمل نہیں کرنے دی۔ جب جنرل پرویز مشرف کا فوجی اقتدار آگیا تو سب کو سکون آگیا۔دو ہزار دو کے الیکشن سے لے کر اب تک ہر حکومت پانچ سال مکمل تو کرلیتی ہے لیکن افراتفری ‘ بے یقینی کی فضامیں۔اپوزیشن جماعتیں حکومت کووقت سے پہلے گھر بھیجنے میں کوئی کسراُٹھا نہیں رکھتیں۔بعض صحافی حضرات حکومت کے خلاف ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ یہ آج گئی یا کل گئی۔حکومت نہ ہوئی بچوں کا کھیل ہوگیا۔ حقیقت یہ کہ ہمارے فعال طبقات کا مزاج نہ اصلاحی ہے‘ نہ انقلابی بلکہ محض فسادی ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ایسے وقت وجود میں آئی تھی جب ملک ایک بڑے بحران سے گزررہا تھا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی بے نظیر بھٹو کودہشت گردوں نے راولپنڈی میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ وفاق کی سلامتی داو پر لگی تھی۔ لیکن پیپلز پار ٹی کی حکومت کو ایک سال بھی پورانہیں ہُوا تھا کہ میڈیا میں تجزیہ کاروں‘ اینکروں نے حکومت جانے کی تاریخیں دینا شروع کردیں۔ عجب کرپشن کی غضب کہانیاں نشر ہونے لگیں۔ میمو گیٹ ا سکینڈل آگیا۔ اپوزیشن لیڈر نواز شریف کالا کوٹ پہن کر حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں مدعی بن گئے۔رہی سہی کسر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے پوری کردی۔ جیسے ہی عدالت عظمی کا آغاز ہوتاٹیلی ویژن اسکرین پر حکومت کے بارے میں ان کے سخت تنقیدی تبصرے چلنے لگتے۔ایک انتشار کی کیفیت تھی۔ اللہ اللہ کرکے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری تو کرلی لیکن اسکا پُورادور افواہوں‘ قیاس آرائیوں کی زد میں رہا۔ سن دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ (ن)کا دور شروع ہوا تو عمران خان صبر نہ کرسکے۔ انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کا ایسا غلغلہ بلند کیا کہ کسی اور قومی مسئلہ پر سنجیدہ بحث و تمحیص نہ ہوسکی حالانکہ اس وقت دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری اپنے لشکر لیکر اسلام آبادپر چڑھ دوڑے۔ نئی حکومت سے صرف ایک سال بعد استعفی اور نئے الیکشن کا مطالبہ کرنے لگے۔ عمران خان اگر یہی مدت اپنی پارٹی کو منظم کرنے میں گزارتے اور خیبر پختونخواہ میں لوگوں کو زیادہ بہتر سہولتوں اور سرکاری خدمات مہیا کرنے میں صرف کرتے توان کی پارٹی اور ملک کو بہت فائدہ ہوتا۔ انہوں نے تعمیری روّیہ اختیارکرنے کی بجائے احتجاجی سیاست کو پسند کیا۔ اسی بے صبری‘ بے چینی‘ بے تابی کا مظاہرہ آج مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں کررہی ہیں۔ ن لیگ کے احسن اقبال فرماتے ہیں کہ ملک کے مسائل کا حل صرف نئے الیکشن میں ہے۔ پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور عمران خان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ملک میں ایک اضطراب اور بے یقینی کی فضا تو پیدا کردی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔اب سڑکیں بلاک کررہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ چند ہزار لوگ جو احتجاج کررہے ہیں وہ اس ملک کے گیارہ کروڑ سے زیادہ ووٹرز کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں؟ جو چالیس پچاس ہزار لوگ مولانا کے دھرنے میں تھے ان سے زیادہ لوگ تو ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ ملک کا سیاسی نظام نہ ہوا مذاق ہوگیا جب جو چاہے چند ہزار لوگ لیکر اسے یرغمال بنا لے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا نہ کوئی نظریہ ہے‘ نہ اصول‘ نہ اقدار۔ صرف اقتدار کی لڑائی ان کا نصب العین ہے۔ جن جماعتوںکے تحریری منشور میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن جب مفاد ہوتا ہے یہ پارٹیاں اتحادی بن جاتی ہیں‘ جب مفاد نہیں ہوتا ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتی ہیں۔ سیاستدانوں کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ اپنی لفاظی سے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے رہیں‘ گمراہ کرتے رہیں۔ہر پارٹی عوام کو صرف آدھا سچ بتاتی ہے‘ حقائق توڑ مروڑ کر ایسے پیش کرتی ہے جو اس کے مفاد میں ہو۔ قوم و ملک کو جو سنگین مسائل کا سامنا ہے ان پریہ رہنما کبھی سنجیدگی سے بات چیت تک نہیں کرتے ‘ مل کر پالیسی بنانا تو دُور کی بات ہے۔ سونے پر سہاگہ ہمارے بعض صحافی حضرات ہیں جن کا کاروبار یہ بن گیا ہے کہ پس پردہ سازشوں کی جھوٹی سچی کہانیاں گھڑ گھڑ کر سناتے رہیں۔ اُن کی ریٹنگ بڑھتی رہے۔ لوگ چسکے لے کر ان کی افواہیں سنیں۔ اس سارے عمل میں ملک کو جو سیاسی ‘ سماجی اور معاشی نقصان ہورہا ہے اس کی پرواہ نہیں۔ جو ملک سیاسی طور پر مستحکم نہ ہو وہ کسی اعتبار سے بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اس ملک کو اوّل روز سے سب سے زیادہ نقصان سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی فضا سے پہنچا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں میں مستقل مزاجی‘طویل مدتی منصوبہ بندی اور تسلسل پیدا نہیں ہوتا۔ ہر چیز ڈنگ ٹپاو‘ ایڈہاک طریقہ سے چلائی جاتی ہے۔ جب بھی جمہوریت آتی ہے‘ سیاستدان‘ ریاستی ادار ے ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرپاتے ۔ پاکستان کے ابتدائی دس گیارہ سال بھی یہی حال تھا۔ آج بھی وہی حال ہے۔ ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔