ماہ مئی کی پہلی تاریخ کویوم مزدور جبکہ اس مہینے کی 3 کو یوم صحافت کے طور پرمنایاجاتا ہے ۔حقائق سامنے رکھ کرجب بات کریں گے تو دونوں زبانی جمع وخرچ کے سواکچھ بھی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیامیں صرف اور صرف سینہ زوری چلتی ہے۔چاردانگ عالم افراد ،جتھے اورحکومتیں جو جس قدر رعونت اورنخوت کے حامل ہوں وہ کھلم کھلامزدوروں کی چمڑی اتارنے اورسچ لکھنے والے اہل صحافت کوقتل کرنے یا انہیں زندانوں میں ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔جب سے میں سن شعور کوپہنچاتومجھے ایسے ظالموں کے مجسم فساد کوکوئی عالمی فورم اورکوئی اقوام متحدہ نکیل ڈالنے والا نظر نہیں آیا۔مقبوضہ کشمیر میں ایسے علاقوں میں شامل ہے کہ جہاں حق اورسچ لکھنے والے بھارت کی سفاکانہ،ظالمانہ اورجابرانہ شکنجے میں پس رہے ہیں ۔ تین عشروں سے زائد عرصے سے کشمیریوں کوآزادی کاشعور بخشنے والی صحافت ایک بار پھر اپنی تاریخ کے ایک غیرمعمولی مرحلے سے گزر رہی ہے۔جوتحریک آزادی کشمیر سے والہانہ انداز کے ساتھ جڑے ہوئے سچ لکھتے ہیں اورحق کی صدا کرتے ہیں۔گذشتہ تین دہائیوںسے مقبوضہ کشمیر میں بھارت ی جبرپرلکھنے اوربولنے پر شدیدقدغن عائد ہے جبکہ سوشل میڈیاپربھی بندشیں ہیں۔لیکن اس قدغن کے باوجودمقبوضہ کشمیرکئی بے باک اورجری تجزیہ کار ،دانشور اور محققین موقع ملنے پر ریاستی دہشت گردی کاپردہ چاک کرتے ہوئے بھرپورطریقے سے اپنافریضہ انجام دیتے چلے آرہے تھے مگراب چن چن کرایسے صاحبان قلم کوگرفتارکرکے پس از زندان دھکیلاجارہا ہے۔صورتحال یہ ہے کشمیرکے ایسے صحافی جبرکی گرفت میں ہیں اور زیرعتاب لانے کے لئے ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔تاریخ بتلارہی ہے کہ ہردورمیںجابرانہ نظام کایہ ایک آزمودہ ہتھکنڈہ رہاہے کہ جوکھل کرباطل کوباطل کہے اورکڑواسچ لکھے تواس کی گردن دبوچ لو۔ یہی ہتھکنڈہ مقبوضہ ریاست جموںوکشمیر پربالفعل نافذ العمل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان مسلمان صحافیوں کی گردن دبوچی جارہی ہے ۔جسدِ صحافت میں پیوست کانٹوںسے جو ٹیسیں اٹھ رہی ہیں اسے خوفزدہ ہوکر اخبارات کے مالکان نے ہاتھ کھڑے کئے ہیں اوران کی خوفزدگی کاعالم یہ ہے کشمیر میں جو 250 سے زائد اخبارات شائع ہوتے ہیں ان میں آپ کوکسی ایک اخبارمیںتحریک آزادی کوتقویت دینے سے متعلق کوئی خبریاکوئی بیان نظر نہیں آئے گا ۔ظلم و ستم کی تپش اس قدرہے کہ کوئی صحافی کسی اخبار کوایسا کالم بھیجتابھی ہے کہ جس میں بھارتی بربریت کوطشت از بام کیاگیا ہوتو اخبارکاایڈیٹوریل بورڈ اس ڈرکے باعث کہ کہیں اسے بھی رگڑانہ لگ جائے بیک جنبش قلم اسے ردی کی نذرکرکے بے معنی کر دیتاہے۔ 17اپریل 2022اتوار کی شب کو سٹیٹ اِنویسٹگیٹنگ ایجنسی یا(SIA) نے سرینگر میں قائم ایک انگلش ڈیجیٹل میگزین(THE KASHMIR WALA کے دفتر پر چھاپے کے دوران ایک نوجوان محقق اعلیٰ فاضلی کو 6 نومبر2011 یعنی تقریباََ11 برس قبل سرینگر سے شائع ہونے والے اس میگزین میں شائع ہونے والے ان کے ایک ایسے ہی مضمون جس میںکشمیر کی متنازعہ حیثیت اورکشمیریوں کے حق خودارادیت پر سچائی،صداقت اورحقائق پرمبنی باتوں کوابھاراگیاتھا اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کر کے عقوبت خانے پہنچایا گیا۔ یہ مضمون اعلیٰ فاضلی نے 2010ء کوپیش آئے ایک خونین واقعے کے بعد بھارت مخالف احتجاجی تحریک کے پس منظر میں لکھا تھا۔ اس احتجاجی تحریک کا آغاز ضلع کپوارہ کے مژھل گاؤں میں تین کشمیری مسلمان مزدوروں کو قابض بھارتی فوج نے ایک جعلی جھڑپ کاڈھونگ رچاکرشہیدکردیاتھاجس کے بعد میں مظلوم شہداء کے حق میں مظاہرے ہوئے ، مظاہرین پرقابض بھارتی فوج کی اندھا دھند فائرنگ سے بیسیوں نوجوان شہید ہوئے تو ۔ اعلیٰ فاضلی نے اسی پس منظر میں ایک مضمون ’’غلامی کی زنجیریں‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس کہ بھارت کشمیرکی تحریک آزادی کے سامنے بھارت بے بس ہے اور یہ ہماری پُرعزم مزاحمت، استقامت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہے اور اس اُمید کے ساتھ آزادی کی طرف یہ سفر جاری رکھنا ہو گا کہ اس کے بعد خوشی کا وقت آئے گا۔لیکن11برس کی تاخیر کے بعد اعلیٰ فاضلی کی تحریر کے خلاف کارروائی کرنے پروادی کشمیرمیںبھارتی پولیس فورس کے ترجمان کانہایت بھونڈے اورمضحکہ خیزطریقے کہناتھا کہ اس مضمون میں بار بارآزادی کا حوالہ اور مجاہدین تنظیموں جیسا لہجہ اختیار کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ محض پراپیگنڈا نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی آئی ایس آئی اور اس کے پروردہ دہشت گرد نیٹ ورک کا نظریہ ہے۔ اعلیٰ فاضلی کشمیر یونیورسٹی کی طلبہ سیاست میں کافی سرگرم رہ چکے ہیں۔ 2016 میں الجزیرہ ٹی وی پر انڈیا مخالف تبصرہ کرنے پر ان کے خلاف 2017 میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انھیں اس سلسلے میں انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے نئی دلی تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔طلبہ کی طرف سے احتجاج کے بعد انھیں کئی ہفتوں بعد رہا کیا گیا تھا۔اعلیٰ فاضلی کی گرفتاری سے قبل فروری 2022کوکشمیرکے ایک معروف صحافی فہد شاہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھااورانہیں کالے قانون ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔فہد شاہ پر الزام تھا کہ انھوں نے حیدرپورہ سر نگر میںہونے والی مسلح جھڑپ کوجعلی انکوائنٹرقراردے دے دیا۔