ٍآل پاکستان انجمن تاجران نے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ٹیکسوں کے خلاف 28اور 29اکتوبر کو ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شناختی کارڈ دینگے نہ رجسٹریشن کرائیں گے۔ فکس ٹیکس سمیت تمام مطالبات پورے ہونے تک احتجاج ختم نہیں ہو گا۔ حکومت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو پہیہ جام اور لاک ڈائون پر مجبور ہو جائینگے۔ تاجروں، صنعتکاروں اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت ایک پہیہ آگے اور دوسرا مخالف سمت میں کھڑا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزراء دونوں تاجر برادری سے الگ الگ وعدے کرتے ہیں لیکن جب ایفا کا وقت آتا ہے تو منظر نامے سے غائب ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔ ملک بھر سے تاجر برادری اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد میں اکٹھی ہوئی۔ پہلے ریلی نکالی، پولیس سے تصادم کے بعد دھرنا دیا گیا۔ لیکن تاجر برادری سے بات چیت کے لیے مشیر خزانہ پہنچے نہ ہی چیئرمین ایف بی آر۔ تاجر برادری نے 9نکاتی ایجنڈا ایف بی آر حکام کے حوالے کیا لیکن کوئی بھی اس پر بات چیت کے لیے تیار نظر نہ آیا۔ حکومت اور تاجر برادری کے مابین جھگڑے نے ملکی معیشت کا پہیہ جام کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان متعدد مرتبہ تاجر برادری پر واضح کر چکے ہیںکہ ہر شخص کو ٹیکس دینا ہو گا۔ معیشت کی بحالی اور استحکام کے لیے ہمارا ساتھ دینا ہو گا۔کیونکہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ملک سے غربت کا خاتمہ اور معاشی ترقی ہے، اس سلسلے میں تاجر برادری کو حکومت کی مدد کرنا ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان کو تاجر برادری کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے گلے شکوے، شکایتیں اور مشکلات کے بارے سن کر کسی حتمی حل تک پہنچنا ہو گا۔ ٹیکسٹائل، لیدر، ہوزری، ٹاول مینوفیکچرنگ، ایگرو، فوڈ، ماہی گیری، ادویات سیکٹر،تعمیرات، اسٹیل، سیمنٹ، پینٹ انڈسٹری، آٹو موبائل پارٹس یہ سب ہماری قومی معیشت کے بنیادی ستون ہیں۔ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھانا اور قومی پیداوار میں اضافہ کرنا ان پر منحصر ہے۔ اگر حکومت ان کی مشکلات دور نہیں کرے گی تو بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ غریب آدمی کا پہلے ہی جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کا یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ 50ہزار سے زیادہ کے لین دین پر شناختی کارڈ کی شرط لازمی ہے جبکہ تاجر برادری اس کے خلاف ہے۔ حکومت شناختی کارڈ کے ذریعے لین دین پر ٹیکس لے گی کیونکہ جب تجارت زبانی کی بجائے تحریری شکل میں ہو گی تو ٹیکس اکٹھا کرنا آسان ہو گا۔شناختی کارڈ پر لین دین کے انکار سے بادی النظر میں اس تاثرکو تقویت ملتی ہے کہ تاجر برادری صرف ٹیکس میں ہیرا پھیری کے لیے ہی شناختی کارڈ کی لازمی شرط سے خلاصی چاہتی ہے۔ اگر آپ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کا جائزہ لیں توآپ کو ان کی ساری معیشت کاغذوں میں نظر آئے گی۔ بڑے تاجر سے لے کر عام ریڑی بان تک ہر کوئی بنک اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے لین دین کرتا ہے۔ اسی بنا پر ان ملکوں میں ٹیکس کی شرح سو فیصد ہے۔ لیکن جن ملکوں میں معیشت زبانی جمع خرچ پر چلتی ہے، وہاں پر ٹیکس چوری سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی آبادی 21کروڑ ہے لیکن ٹیکس دینے والے محض 20لاکھ افراد ہیں اس میں بھی اکثریت سرکاری ملازمین کی ہے۔ اس کے باوجود لوگ مہنگائی کی دہائی دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے سب کو ٹیکس میں لانے کا اعلان کیا تو تاجر برادری بپھر گئی اگر ہم تجارت کا جائزہ لیں تو کتنی چیزیں سمگل ہو کر غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں آتی ہیں۔ سگریٹ،چائے، ربڑ کے ٹائر، پلاسٹک کی اشیاء ترکیبی اور دھاگے یہ ان چیزوں میں شامل ہیں جو افغا ن ٹرانزٹ ٹریڈ کے راستے دبئی سے سمندر کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اسمگلنگ کے علاوہ درآمدات کی انڈر انوائسنگ بھی بہت عام ہے۔ درآمد کندگان ٹیرف اور ڈیوٹی کی پوری ادائیگی سے بچنے کے لیے کسٹم حکام کے سامنے اصل سے کم تعداد اور قیمت ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا نقصان قومی خزانے کو ہوتا ہے۔ حکومت نے افغان بارڈر پر تو باڑ نصب کر کے سمگلنگ کا راستہ روک دیا ہے۔ سمندری راستے کے ذریعے سمگلنگ پر قابو پایا جا رہا ہے لیکن ابھی تک انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کے کلی خاتمے پر بہت محنت کی ضرورت ہے۔ گو ایف بی آر نے جعلی انوائسنگ پر تاجر برادری کو دو ٹوک الفاظ میں خبردار کیا ہے لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا۔ تاجر برادری اس معاملے میں مخلصانہ طور پر تعاون کرے تو ہی بیل منڈھے چڑھ سکتی ہے۔ تاجر برادری اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ من مانی کر کے حکومت کو ناکام کر دے گی یا حکومت اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی تو یہ غلط فہمی ہے۔ اس طرح اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ تاجروں کو طاقت کے زور پر ہمنوا بنا لے گی تو اس کی سوچ بھی غلط ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ فریقین ملکی مفاد کی خاطر بیٹھ کر افہام و تفہیم سے بات چیت کریں۔ شناختی کارڈ کی شرط کی بجائے دوسرا حل کریڈٹ کارڈ یا پھر بنک کے ذریعے ادائیگی کاہے لیکن تاجر اس پر بھی راضی نہیں۔ بالآخر اس مسئلہ کا کوئی حل تو نکالنا پڑے گا۔ وزیر اعظم چین کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ تاجر برادری بھی 28اور 29اکتوبر کو ملک گیرہڑتال کا اعلان کر چکی ہے ۔ مہنگائی کے ستائے عوام پہلے ہی سڑکوں پر آنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ جے یو آئی نے بھی 31اکتوبر کو ملین مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم ذاتی دلچسپی لے کر تاجر برادری کے مسائل حل کریں تا کہ ملکی معیشت سنبھل سکے۔ پہلے ہی ہماری معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ اگر تاجر برادری ہڑتال پر چلی گئی تو رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ اس لیے حکومت تاجروں کے تحفظات دور کرے اور لین دین کے معاملات میں بھی شناختی کارڈ کی شرط پر کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔