پینسٹھ سالہ بھارتی صحافی کرن تھاپر بھارت میں خاصے جانے مانے جاتے ہیں انہیں بات سے بات نکالنے میں ملکہ حاصل ہے اسی لئے وہ جب بھی کسی کا انٹرویو کرتے ہیں تووہ زرا ہٹ کر ہوتا ہے ،تھاپر سی این این اور آئی بی این جیسے بڑے اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیںانکے پروگرام ’’کورٹ مارشل ‘‘ اور’’فیس ٹو ٖفیس‘‘ خاصے مشہور رہے ہیں ان کے کئے گئے انٹرویوز دیر تک موضوع بحث رہتے ہیں۔ انہوں نے نومبر 2020ء میں بھارتی نیوز ویب سائیٹ دی وائیر کے لئے فاروق عبداللہ کا انٹرویو کیا تھا ،جس میں قائد اعظم کا دوستی کے لئے بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر نہرو کی جانب مسکرا دیکھنے والے کشمیر فروش شیخ عبداللہ کے صاحبزادے نے افسردگی کے ساتھ قطعی لہجے میں کہا تھا کہ ’’کشمیری آج خود کو ہندوستانی سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔۔۔فاروق عبداللہ نے دی وائر کو دیئے گئے چوالیس منٹ کے انٹرویو میں بتایاکہ ان کا دل ٹوٹ چکا ہے ۔ فاروق عبداللہ نے تھاپر کو بتایا کہ پانچ اگست کو مودی نے کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کی جبکہ اس فیصلے سے 72گھنٹے پہلے ہی میری مودی سے ملاقات ہوئی تھی انہوںنے کشمیر کی خصوصی اہمیت کے خاتمے کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا البتہ جب میں نے ان سے ’’گھاٹی ‘‘ میں بڑی تعداد میں مزید فوج بلانے کی وجہ پوچھتے ہوئے کہا کہ اتنے فوجی دستے کیوں تعینات کئے جارہے ہیں ۔کیا کسی طرف سے فوجی خطرہ ہے ؟تو نریندر مودی نے کہا کہ اس کے پیچھے سلامتی کے معاملات ہیں ،فاروق عبداللہ نے کہا کہ ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ کشمیرکی خصوصی حیثیت برقرار رہے گی لیکن اس ملاقات کے محض 72گھنٹے بعد ہی بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف پھینکتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ اچک لیا،گجراتی بابو کی اس ٹھگ بازی پر کشمیر ی شیخ نے کہا ’’مجھے دھوکا دیاا ور گمراہ کیا گیا‘‘ اسی انٹرویو میں کشمیری شیخ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے جب یہ معاملہ پارلیمان میں اٹھانے کے لئے اسپیکر سے رابطہ کیا تو یقین دہانی کرائی گئی کہ ’’ چرچہ کے لئے لوک سبھا میںپورا وقت دیا جائے گا‘‘۔لیکن افسوس کے کشمیری شیخ کے ساتھ یہاں بھی ہاتھ ہو گیا ا ور انہیں لوک سبھا میں اس اہم معاملے پر بات ہی نہیں کرنی دی گئی ۔۔۔اپنے والد کے کشمیر فروشی کے سودے کی تمام عمر وکالت کرنے والے شیخ عبداللہ نے کرن تھاپر سے رونی صورت بنا کر کہا’’ ’’اسپیکر لوک سبھابھی اپنے وعدے پر پورا انہیں اترے‘‘۔ کرن تھاپر کے اس انٹرویو کی ہیڈلائن شیخ کا تلخی میں گندھا ہوا یہ جملہ تھا کہ کشمیری چین کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں لیکن بھارت کے ساتھ نہیںہمارے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا سا سلوک کیا جارہا ہے ،یہ انٹرویو مجھے خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ کے افسردگی میں ڈوبے اعتراف پر یاد آگیا امر جیت سنگھ نے کچھ عرصہ پہلے ہی ایک انٹرویو میں اسی تاسف کا اظہارکیا ہے جو ماسٹر تارا سنگھ کی پوتی کرچکی ہیں ۔۔۔فاروق عبداللہ اور تارا سنگھ کی پوتی کے تاسف سے پہلے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ اس ملاقات کے احوال جان لیجئے کہ بٹوارے سے پہلے جب قائد اعظم نے شیخ عبداللہ کو مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کی حمایت سے منع کیااور سمجھایا کہ یہ تمہارے ساتھ دھوکا کریں گے لیکن شیخ عبداللہ نہ مانے انہو ں نے قائد اعظم کی نصیحت نظر انداز کرکے نہرو کی مسکراہٹ پر اپنی مسکان اچھال دی اور آج اسی خاندان کی وہاں پگڑی اچھل رہی ہے ۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیں کہ برصغیر کا بٹوارہ ہونے سے پہلے پتلے دبلے محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے اس وقت یہی بات کسی اور کو بھی سمجھائی تھی لیکن افسوس کہ اس وقت ان کی بات پر کان نہ دھرے گئے اور آج سکھ کف افسوس مل رہے ہیں ،قائد اعظم نے سکھوں کے رہنما تارا سنگھ کو پیشکش کی تھی کہ وہ بھارت میں شامل ہونے کے بجائے راوی سے جمنا تک اپنی ریاست بنا لیں ہم آپکوپاکستان میں اندرونی خودمختاری دینے کو تیار ہیں لیکن تارا سنگھ نے یہ پیشکش ماننے کے بجائے لاہور میں کرپان لہرا دی اور کہا کوئی ہندوستان کو تقسیم تو کرکے دکھائے ہم ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان ہماری لاشوں پر بنے گا۔۔۔اس وقت سکھوں کے پربرہمنوں کا جادو سر چڑ ھ کر بول رہا تھا۔ انہوں نے پاکستان کی مخالفت زبانی کلامی اور سیاسی طور پر ہی نہیں کی بلکہ کانگریس کے بہکاوے میں آکر 47ء میں لاہور پر قبضے کی کوشش تک کی اس مقصد کے لئے سکھ سپاہی شاہ عالمی میں ایک جگہ بندوقیں تک چھپا کر رکھتے تھے تاکہ جب اشارہ ہو تو یہ کام آئیں وہ تو خیر رہی کہ افضل چیمہ نامی ایک مسلمان مجسٹریٹ کو بھنک پر گئی اور اس نے ایک سکھ سپاہی کو پکڑ کرسب اگلوا لیا اور پھرچھاپہ مار کر ساری بندوقیں قبضے میں لے لی تھیں آج وہی سکھ ہاتھ مل رہے ہیں اور دہلی کے اطراف ڈھائی ماہ سے احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق میں محفوظ سکھوں کی ’’سادگیاں ‘‘ اور کشمیر کے شیخوں کی ’غداریاں ‘‘ مجھے خالصتان تحریک کے ڈاکٹر امرجیت سنگھ کے افسردہ لہجے نے یاد دلائیں ،ایک انٹرویومیں ڈاکٹر امر جیت سنگھ کہہ رہے تھے کہ 47ء میں ہم سے بڑی بھول بلکہ گناہ ہوا ،ہم نے قائد اعظم کی پیشکش رد کرتے ہوئے پاکستان میں اپنی خودمختار ریاست قائم کرنے کے بجائے اپنی قسمت بھارت کے ساتھ جوڑ دی۔۔۔ڈاکٹر امر جیت سنگھ کے لہجے کی افسردگی وہی افسردگی تھی جو سینئر صحافی ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کو انٹرویو دیتے ہوئے ماسٹر تارا سنگھ کی پوتی کے لہجے میں در آئی تھی۔۔۔ آج بھارت کا سکھ غضبناک ہے اور ٹریکٹر ٹرالیاں لے کر دہلی پر چڑھ دوڑا ہے ۔بھارتی نیوز ویب سائیٹ بزنس ٹوڈے کے مطابق اس احتجاج سے بھارت کو یومیہ ساڑھے تین کروڑ روپے یومیہ کا نقصان ہو رہا ہے لیکن اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔