آج جب میں یہ تحریر قلم بند کر رہی ہوں 7اپریل ہے اور دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ یہ دن گزشتہ کئی دہائیوں سے منایا جاتا رہا ہے، ہر بار اس کا موضوع مختلف ہوتا ہے۔ مگر آج جب یہ دن منایا جا رہا ہے تو پوری دنیا کرونا وائرس کی جکڑ میں ہے۔ بیمار تو بیمار، جو لوگ بھلے چنگے اور صحت مند ہیں وہ بھی نفسیاتی طور پر کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ بعض اوقات بیماری کا خوف، بیماری سے بڑھ کر قاتل ثابت ہوتا ہے۔ سو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس بار صحت کا عالمی دن کرونا وائرس کے نام ہو چکا ہے۔ جب اٹلی، سپین، فرانس، چین،ایران، امریکہ، برطانیہ، بھارت، پاکستان، الغرض دنیا کے 204ممالک ایک ہی بیماری کے خلاف ایک نادیدہ دشمن کو شکست دینے میں مصروف ہیں۔ اس سے پیشتر، صحت کے معاملات پوری دنیا میں کبھی ایک نوعیت کے نہیں ہوئے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بہترین طبی سہولیات، سوشل او رصحت کی سکیورٹی کا فول پروف نظام وہاں کے باشندوں کی بہترین صحت کا ضامن رہا ہے۔ جبکہ غربت اور مسائل کی گھاٹیوں سے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں سماجی تحفظ کے نظام کا نہ ہونا اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث، صحت و تندرستی کے معاملات دگرگوں رہے ہیں۔ مگر اس وقت کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں دنیا کے امیر ترین اور غریب ترین ملک ایک ہی کشتی کے سوار ہیں بلکہ وائرس امیر ملکوں میں زیادہ قیامت ڈھا رہا ہے۔ انفرادی طور پر دیکھیں تو بھی سہولیات اور آسودگی کے پروردہ امیر اور خوشحال لوگ اس کی زد میں زیادہ آ رہے ہیں۔ یہ بھی شاید قدرت کا نظام ہے کہ غربت کی مشکلات میں زندگی گزارنے والے افراد جنہیں پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہوتا، خوراک کے نام پر ناکافی غذا، صفائی ستھرائی سے عادی ماحول میں رہ رہ کر ان کا مدافعتی نظام بھی قدرتی طور پر ایسا مضبوط اور جنگجو ہو جاتا ہے کہ وائرس آسانی سے اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس برس صحت کا عالمی دن جس موضوع کے تحت منایا گیا وہ موضوع ہے کہ’’ نرسوں اور مڈ وائفز کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے‘‘۔ یہ موضوع موجودہ صورت حال میں بہت ہی معنی خیز ہے۔ اس وقت کووڈ 19کی ستم ظریفیاں عروج پر ہیں اور دنیا بھر کے ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے لوگ انتہائی خطرے والے حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے لیے حفاظتی کٹس کی شدید کمی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ جیسے ملک میں جہاں دفاع پر اور جنگوں میں، کھربوں ڈالر جھونک دیئے جاتے ہیں، وہاں بھی حفاظتی کٹس، ماسکس اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہو چکی ہے۔ جنوب مشرقی فلوریڈا کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والی 62سالہ نرس پینی بلیک کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں اب حفاظتی ماسک تک ہمیں تالے میں رکھنا پڑتے ہیں کیونکہ ان کے چوری ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہ امریکہ کا حال ہے جہاں صحت پر سالانہ 3.5ٹریلین ڈالر کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہاں صحت کبھی بھی ترجیحات کا حصہ نہیں رہی۔ وائرس کے وار یہاں بھی جاری ہیں اور اس جنگ کو اگلے محاذوں پر لڑنے والی سفید کوٹ والی مسیحا آرمی کو حفاظتی کٹس کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ 6اپریل 2020ء کا دن کوئٹہ کے ینگ ڈاکٹروں کے لیے بہت کڑا تھا۔ ان پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ تشدد کیا اور ان کو پکڑ پکڑ کر پولیس گاڑیوں میں بٹھا کر حوالات لے جایا گیا۔ قصور ان کا صرف یہ تھا کہ انہیں حفاظتی کٹس کے بغیر، کرونا وائرس کی فضا میں کام کرنا منظور نہیں تھا۔ یہ ان کا مطالبہ تھا کیونکہ اس طرح ان کی زندگیاں شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ مکمل حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کرنے کا نتیجہ ہے کہ کوئٹہ میں تقریباً 15ڈاکٹرز کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ حفاظتی کٹس کا مطالبہ ان کا جائز حق ہے۔ ان کے اس حق کو تسلیم کرنے کی بجائے ان پر لاٹھی چارج کرنا۔ ان پر تشدد کرنا ظلم کے مترادف ہے اور پھر ان حالات میں جبکہ وہ تاریخ کی مشکل ترین جنگ کو ناکافی ’’اسلحے‘‘ کے ساتھ بہادری اور جانبازی سے شکست دینے میں مصروف ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے اس سارے افسوسناک واقعہ پر کہا کہ ہم نے تو ڈاکٹروں کو پھول دیئے ہیں، سفید جھنڈے لہرائے ہیں ،سلیوٹ کیا ہے۔ پھر بھی یہ ہم سے شکوہ کرتے ہیں۔ اس پر ینگ ڈاکٹرز الائنس کے صدر ڈاکٹر یاسر نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہمیں سلیوٹ، پھول اور سفید جھنڈے نہیں حفاظتی کٹس کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہماری جان کو خطرہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور صحت کا عالمی دن اس عالمی وبا کے تناظر میں منایا جا رہا ہے۔ جنگی ہتھیاروں اور دفاعی ضرورتوں پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے والی عالمی طاقتیں اس وائرس کے سامنے شکست سے دوچار ہیں۔ کیا تاریخ کے اس موڑ پر دنیا کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے کہ دنیا پھر سے طے کرے کہ کھربوں ڈالر جو جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ جو ایٹمی ہتھیاروں اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کو بنانے کے لیے جھونکے جاتے ہیں، ان کو انسان اور انسانیت کی بقا پر خرچ ہونا چاہیے۔وائرس سے برسرپیکار دنیا کو ٹینکوں،توپوں، جنگی طیاروں، میزائلوں کی نہیں، وینٹی لیٹرز، ماسکس اور حفاظتی کٹس کی ضرورت ہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی جنگ، کسی جنگی محاذ پر نہیں، ہسپتالوں میں لڑی جا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭